سورة البقرة - آیت 243

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کی سرگزشت پر غور نہیں کیا جو اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اور باوجودیکہ ہزاروں کی تعداد میں تھے مگر (دلوں کی بے طاقتی کا یہ حالت تھا کہ) موت کے ڈر سے بھاگ گئے تھے۔ اللہ کا حکم ہوا (تم موت کے ڈر سے بھاگ رہے ہو تو دیکھو اب تمہارے لیے موت ہی ہے (یعنی ان کی بزدلی کی وجہ سے دشمن ان پر غالب آگئے) پھر (ایسا ہوا کہ) اللہ نے انہیں زندہ کردیا (یعنی عزم و ثبات کی ایسی روح ان میں پیدا ہوگئی کہ دشمنوں کے مقابلہ پر آمادہ ہوگئے اور فتح مند ہوئے) یقینا اللہ انسان کے لیے بڑا ہی فضل و بخشش رکھنے والا ہے لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر) اکثر آدمی ایسے ہیں جو ناشکری کرنے والے ہیں

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) اس سے پیشتر کی آیات میں قوم بنی اسرائیل کا واقعہ ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح وہ جہاد سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور کس طرح موت کے چنگل میں گرفتار ہوگئے اور پھر کیونکر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی بخشی مقصد یہ ہے کہ جہاد کی اہمیت بتلائی جاوے اور یہ بتلایا جاوے کہ موت بہرحال آنے والی چیز ہے ، اس سے مفر نہیں ، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ موت خدا کی راہ میں آئے ۔ اس کے بعد دعوت جہاد ہے اور اس کا ذکر ہے ، کہ خدا کو قرض دو ، تاکہ قیامت کے دن اسے کئی گنا زیادہ کرکے تمہیں اجر کی صورت میں بدل دے ۔ اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے ۔ اسے ہمارے مال ودولت کی ضرورت نہیں ، اس کے خزانے بھرے پڑے ہیں ، البتہ ہمیں توشہ آخرت کی سخت حاجت ہے ، اس لئے فرمایا کہ تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اعمال کی دولت کو جمع کراؤ وہ اسے بڑھاتا رہے گا اور تمہیں کئی گنا نفع کے ساتھ واپس کرے گا ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالاجداح انصاری (رض) نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ” ہاں “ تو کہا ہاتھ بڑھائیے ، اس کے بعد باغ کو اللہ کی راہ میں دینے کا اعلان فرما دیا جس میں تقریبا چھ سو درخت کھجور کے تھے ۔ آیت کو ان الفاظ پر ختم فرمایا کہ ﴿وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾مقصد یہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے آدمی مفلس وقلاش نہیں ہوجاتا ، یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور یہ جان لو کہ تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے ، تم چاہتے ہو کہ تم احکم الحاکمین کی جناب میں خالی ہاتھ جاؤ ۔ حل لغات : أُلُوفٌ: ہزاروں ، جمع الف ۔ حَذَرَ: خوف ، ڈر ۔