سورة البقرة - آیت 17

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی (رات کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا۔ اس) نے (روشنی کے لیے) آگ سلگائی لیکن جب (آگ سلگ گئی اور اس کے شعلوں سے) آس پاس روشن ہوگیا تو قدرت الٰہی سے ایسا ہوا کہ (اچانک شعلے بجھ گئے، اور) روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی جاتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روشنی کے بعد اندھیرا چھا گیا اور آنکھیں اندھی ہو کر رہ گئیں کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف2) اللہ ایسے لوگوں سے دنیا وآخرت میں سلوک بھی اسی طرح کا روا رکھتے ہیں کہ جو بجائے خود ایک قسم کا مذاق معلوم ہو۔ نہ ایمان وذوق کی شیرینی سے یہ جماعت بہرہ ور ہوتی ہے اور نہ کفر والحاد کے فوائد ظاہری سے متمتع ، کفر اگر تذبذب کے خرخشوں سے معرا ہو تو کم از کم ظاہری وعارضی لذات سے محروم نہیں اور ایمان و عقیدت اگر شک وارتباب سے پاک ہو تو پھر دونوں جہان کے مزے ہیں ۔ اللہ بھی خوش ہے اور دنیا بھی تابع ۔ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن جب یہ جنت کی طرف بڑھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ یہ مقام سرور وجسور ہمارے لئے ہے تو یکایک ان میں اور جنات نعیم میں ایک دیوار حائل ہوجائے گی اور گویا یہ بتایا جائے گا کہ یہ جواب ہے تمہارے اس مذاق و استہزاء کا جسے تم فخریہ اپنے رؤساء دین سے ظاہر کیا کرتے تھے ۔ منافق کا نفسی تذبذب : ان آیات میں نہایت ہی بلیغ انداز میں منافقین کے نفسی تذبذب کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کبھی تو ایمان کی مشعل فروزاں سے مستنیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی پھر کفر کی تاریکیوں میں جاگرتے ہیں ، ان کی مثال ایسے متحیر اور پریشان شخص کی ہے جو آگ جلا کے روشنی پیدا کرلے اور پھر یکایک اندھیرا ہوجانے پر اندھیاری میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرے ۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان روشنی ہے اور نفاق ظلمت وتاریکی ، مسلمان کے سامنے اس کا مستقبل ‘ اس کا نصب العین واضح اور بین طور پر موجود ہوتا ہے ، بخلاف منافق کے کہ اس کی زندگی کا کوئی روشن مقصد نہیں ہوتا ۔