سورة البقرة - آیت 238

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) اپنی نمازوں کی حفاظت میں کوشاں رہو۔ خصوصاً ایسی نماز کی جو (اپنے ظاہر و باطن میں) بہترین نماز ہو اور اللہ کے حضور کھڑے ہو کہ ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے ہو

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نماز اور معاملات خانگی : (ف ١) ان آیات میں جو بات قابل غور ہے ، وہ یہ ہے کہ نکاح وطلاق کے عین درمیان نماز کا ذکر ہے ، اس سیاق کا فلسفہ کیا ہے ؟ نکاح وطلاق کے مسائل جو یکسر خانگی معاملات ہیں ‘ نماز سے کیا تعلق وربط رکھتے ہیں جو خالص روحانی عبادت ہے اور کیوں نماز کو عین ان مسائل کے درمیان بیان کیا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قرآن حکیم مضامین کے بیان کرنے میں کسی اکتسابی اسلوب بیان کا محتاج نہیں ، اس کا انداز بیان اپنا ہے اور فطری ہے ، جس طرح انسان سوچتے وقت کسی خاص منطقی طریق کا پابند نہیں ہوتا اور خیالات تنوع کے ساتھ دماغ میں آتے ہیں ، اسی طرح قرآن حکیم کے مضامین اپنے اندر ایک عجیب تنوع لئے ہوئے ہیں جن میں گو مصنوعی ترتیب نہیں ہوتی ، مگر قدرتی ربط اس نوع کا ہوتا ہے کہ پڑھنے میں دلچسپی قائم رہتی ہے ۔ دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بتانا یہ مقصود ہے کہ نماز ومعاملات میں ایک گہرا ربط ہے ، وہ لوگ جو نماز تو پڑھتے ہیں ، مگر معاملات خانگی ہیں اچھے ثابت نہیں ہوتے ، وہ نماز کا مفہوم نہیں سمجھتے ، نماز ایک خاص نوع کی روحانی ریاضت ہی کانام نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے اور اس حد تک ہے کہ وہ لوگ جو حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے صحیح معنوں میں عبادالرحمن نہیں ، نماز کے معنی ایک ذہنی عملی انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے ہیں جو نماز میں پیدا ہوجاتا ہے یعنی نماز پڑھنے سے نماز کا ہر حصہ زندگی متاثر ہوتا ہے ، بلکہ بدلتا ہے ۔ (آیت) ” ان الصلوۃ تنھی عن الفحشآء والمنکر “۔ کا یہی مفہوم ہے ۔ صلوۃ وسطی سے مراد بہتر ، زیادہ مراتب ودرجات کی حامل نماز کے ہیں ، اس لئے لفظ وسط جس کے معنی درمیان کے ہوتے ہیں ، اس سے تفصیل کا صیغہ مشتق نہیں ہوتا ، پھر اس کے مصدوق میں اختلاف ہے ۔ زیادہ قرین صحت یہ ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ نماز کی تاکید اس قدر زیادہ ہے کہ حالت جنگ میں بھی اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، اگر سواری کی صورت میں ممکن ہو تو سواری پر پڑھ لے ، ورنہ کھڑے کھڑے ادا کرلے ، بہرحال معاف نہیں ہو سکتی ، اس لئے کہ یہی تو وہ چیز ہے جس سے فرائض کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جس سے مسلمانوں کی فلاح وبہبود وابستہ ہے ۔