سورة طه - آیت 39

أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہم نے اسے سجھا دیا تھا کہ بچے کو ایک صندوق میں ڈال دے، اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے، دریا اسے کنارے پر دھکیل دے گا، پھر اسے وہ اٹھا لے گا جو میرا (یعنی میری قوم کا) دشمن ہے، نیز اس بچہ کا بھی دشمن اور (اے موسی) ہم نے اپنے فضل خاص سے تجھ پر محبت کا سایہ ڈال دیا تھا (کہ اجنبی بھی تجھ سے محبت کرنے لگے) اور یہ اس لیے تھا کہ ہم چاہتے تھے تو ہماری نگرانی میں پرورش پائے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ام موسیٰ کی جانب وحی کے معنی یہ ہیں کہ بذریعہ الہام ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں صندوق میں رکھ کر بہا دو ، وہ امن وسل امتی کے ساتھ حاصل تک پہنچ جائے گا ، اور دشمنوں کے ہاں تربیت حاصل تک پہنچ جائے گا ، اور دشمنوں کے ہاں تربیت حاصل کرے گا ، ام موسیٰ کا ایمان ملاحظہ ہو کہ لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک رہی ہیں کتنا زبردست عقیدہ ہے کس قدر محکم یقین ہے کہ نتائج سے بےپروا ہو کر اپنے بیٹے کو دریا کی موجوں کے سپرد کر رہی ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ کی عنایت دیکھئے کہ اس نے ام موسیٰ (علیہ السلام) کے تقویت ایمان کے ثمرہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شاہی محلات میں پہنچا دیا ، اور تربیت کے لئے یہ سامان کیا ، کہ ماں ہی کو دودھ پلانے کی خدمت سونپی گئی ، جو لوگ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ ہی طرح حیرت انگیز طور پر ان کی مد فرماتا ہے ، (آیت) ” ثم جئت علی قدر یموسی “۔ سے غرض یہ ہے ، کہ ابتدائی تمام منزلیں طے کر چکنے کے بعد اب تم اس انداز خاص تک پہنچ گئے ہو ، جہاں ضرور ہے کہ تمہیں اپنی خدمات کے لئے مختص کرلیا جائے ۔