وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جن عورتوں کو ان کے شوہروں) نے طلاق دے دی ہو تو انہیں چاہیے ماہواری ایام کے تین مہینوں تک اپنے ٓپ کو (نکاح ثانی سے) روکے رکھیں۔ اور اگر وہ اللہ پر اور ٓخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، تو ان کے لیے جائز نہیں کہ جو چیز اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کردی ہو، اسے چھپائیں (یعنی اگر حمل سے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ اسے ظاہر کردیں) اور ان کے شوہر (جنہوں نے طلاق دی ہے) اگر عدت کے اس مقررہ زمانے کے اندر اصلاح حال پر ٓمادہ ہوجائیں تو وہ انہیں اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔ اور دیکھو، عورتوں کے لیے بھی اسی طرح کے حقوق مردوں پر ہیں۔ جس طرح کے حقق مردوں کے عورتوں پر ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر ایک خاص درجہ دیا گیا ہے۔ اور یاد رکھو اللہ زبردست حکمت رکھنے والا ہے
مطلقہ اور اس کی عدت : (ف2) اسلام نے جہاں عورت کی عزت وحرمت کا جائز اعتراف کیا ہے وہاں اس نے اس کی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے اور جو بات کہی ہے وہ عین فطرت نسوانی کے لئے مفید ہے ، مثلا طلاق اصولا دونوں طرف سے ہو سکتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے اس درجہ شکایت ہو سکتی ہے کہ وہ علیحدہ ہوجانے پر مجبور ہوں ، مگر عورت از خود اس کی مجاز نہیں اور یہ اس لئے کہ عورت فطرتا عقل سے جذبات کی زیادہ تابع ہوتی ہے ، اسے اگر طلاق وتخلی کے اختیارات دے دیئے جائیں تو وہ اپنی زندگی نہایت تکلیف میں بسر کرے اور تلخ کرلے ۔ وہ لوگ جنہوں نے اسلامی نظام طلاق کا مطالعہ نہیں کیا ، معترض ہیں کہ دیکھئے اسلام نے کس طرح عورت کے حق ازواج کو چھین لیا ہے اور ہر وقت اسے طلاق کے ڈر سے سہما رکھا ہے ، حالانکہ طلاق کی حیثیت بغض المباحات کی ہے یعنی ناپسندیدہ مگر ناگزیر علیحدگی کی کیا اس قسم ونوع کے حالات پیدا نہیں ہوتے ، کہ میاں بیوی الگ ہوجائیں ، اس سے دونوں کی عزت محفوظ ہوجاتی ہے ، دونوں ایک دوسرے کی جانب سے عافیت میں ہوجاتے ہیں اور دونوں آزاد ہوجاتے ہیں کیا شادی کرلینے کے بعد مرد بہرحال نباہ کرنے پر مجبور ہے جبکہ اس کا دل نہیں چاہتا ۔ بات یہ ہے کہ ہم معاملات کو واقعات اور انسانی فطرت کی روشنی میں نہیں دیکھتے بلکہ ان کو محض منطق وقیاس کی رو سے دیکھتے ہیں ۔ یعنی ہم صرف معاملہ کے اس پہلو کو بھول جاتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ قرآن حکیم نے مطلقات کو تین قروء کی جو رعایت دی ہے اس لئے ہے کہ شاید دونوں میں صلح ہوجائے اور دونوں پھر بدستور میاں بیوی رہیں ، مطلقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو مدخولہ ہوں اور حاملہ نہ ہوں ، غیر مدخولہ کا حکم الگ ہے ، اس کے متعلق فرمایا ﴿فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا﴾حاملہ کے متعلق ارشاد فرمایا ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﴾قروء کے متعلق اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک اس سے مراد مدت طہر ہے اور بعض کے نزدیک مدت حیض اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ قروء زوات الاضداد میں سے ہے ، اس کا اطلاق حیض اور طہر دونوں پر ہوتا ہے ، قروء کے اصل معنی مدت واجل کے ہیں جیسے ھبت الریاح لقرونھا ، چونکہ طہر وحیض دونوں ایک قسم کی مدت ہیں ‘ اس لئے دونوں پر لغوا اطلاق درست ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں یہ لفظ دونوں معانی میں برابر استعمال ہوا ہے حیض کے لئے جیسے فرمایا ’’دَعِي الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِكِ، طَلَاقُ الْأَمَةِ ثِنْتَانِ وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ ‘‘ طہر کے لئے جیسے قرآن میں فرمایا ﴿فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾اور ظاہر ہے کہ عدت طلاق طہر ہے ، مگر مقصد چونکہ مہلت دینا ہے ‘ اس لئے اوسع اور تین مراد لیا اور یہ منشائے شریعت کے زیادہ مطابق ہوگا ، لہذا حیض زیادہ قرین قیاس ہے اور یوں دونوں معانی کے لئے گنجائش ہے ، عورت کو یہ ہدایت کی کہ وه جو کچھ اس کے رحم میں ہے چھپائے نہیں ، اس لئے کہ فیصلہ اس صورت میں صرف عورت کی بات پر ہوگا ۔ یہ بھی فرمایا کہ اثنائے عدت میں مردوں کو اختیار رجوع ہے ، اگر وہ اصلاح چاہیں ، اس کے بعد یہ بتایا کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ، بجز اس کے کہ مردوں کے ذمہ نفقہ وقیام کی ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں ، اس لئے معمولی باتیں طلاق وتخلی کا باعث نہ بنیں اور حتی الوسع صلح کرلی جائے ۔