لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے کی قسم کھا بیٹھیں تو ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر اگر اس عدت کے اندر وہ رجوع کرلیں (یعنی بیوی سے ملاپ کرلیں) تو رحمت سے بخشنے والا ہے
ایلاء کا حکم : (ف1) ایلاء کے مفہوم میں اختلاف ہے لغۃ قسم کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، شرعا متفق علیہ مفہوم جس پر جمہور کا اتفاق ہے ، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی عورت کی مقاربت سے چار مہینے سے زائد مدت کے لئے پرہیز کا عہد کرلے اور قسم کھالے کہ وہ اس عرصے میں عورت کے نزدیک نہیں جائے گا اور چار مہینے یا اس سے کم مدت کے لئے قسم کھائے تو اس کا حکم یمین محض کا حکم ہوگا ایلاء کا نہیں ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہائے عظام کا یہی مذہب ہے ۔ جب یہ صورت حالات پیدا ہوجائے تو پھر یا تو چار مہینے صبر کرکے رجوع کرلے تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہ ہوگا اور یا اگر مدت سے پہلے رجوع کرلے تو کفارہ یمین دے اور اگر کلی طور پر انقطاع کا قصد ہو تو طلاق دے دے ، رجوع کے متعلق فرمایا ﴿وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ یعنی نباہ کرنا بہرحال بہتر ہے قسم کی پرواہ نہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے اور طلاق کے متعلق فرمایا ﴿فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾یعنی اللہ تعالیٰ مانتے اور سنتے ہیں کہ تم دونوں میں سے کون ظالم اور کون مظلوم ہے لہذا طلاق کے معاملے میں احتیاط ضروری ہے ، ذرا سی غفلت میں دونوں زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں ۔