سورة مريم - آیت 18

قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مریم اسے دیکھ کر (گھبرائی گئی، وہ) بولی اگر تو نیک آدمی ہے تو میں خدائے رحمن کے نام پر تجھ سے پناہ مانگتی ہوں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسیح (علیہ السلام) کا تولد : (ف ١) ان آیات میں حسب ذیل نکات کا ذکر ہے ۔ ١۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا کسی جنسی یا غیر جنسی ضرورت کے لئے خلوت اختیار کرنا ، ٢۔ جبرئل (علیہ السلام) کا انسانی شکل میں نمودار ہونا ، اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا از راہ پاکبازی ان سے اپنے خوف کا اظہار کرنا ۔ ٣۔ جبرئیل (علیہ السلام) کا فرمانا کہ میں ایک خاص ضرورت سے آیا ہوں یعنی تم کو ایک پاکباز لڑکے کی خوشخبری سناؤں ۔ ٤۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا اظہار تعجب کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ میں شادی شدہ نہیں ہوں اور نہ کسی مرد سے میرا کبھی تعلق ہوا ۔ ٥۔ جبرائیل (علیہ السلام) کا فرمانا کہ یہ بات تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بالکل سہل ہے وہ باوجود ان موانع کے اولاد پیدا کرسکتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ انداز بیان غیر معمولی واقعہ پر دلالت کرتا ہے شادی کا پیغام نہیں جیسا کہ بعض کوتاہ فہم لوگوں نے سمجھا ہے ، فرشتے کا خلوت میں ملنا اور جنسی خواہشات کے وقت اس کے معنے یہ ہیں کہ اس وقت متخیلہ پر خوشخبری زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہے ، حضرت مریم (علیہ السلام) کا انکار وتعجب اس لئے ہے کہ وہ نہ شادی شدہ ہے اور نہ کلیسا کے شروط کے مطابق شادی شدہ ہوسکتی ہے ، اللہ تعالیٰ کا (آیت) ” کذلک “ فرمانا اس کے معنی یہ ہیں کہ باوجود شادی شدہ نہ ہونے کے ایسا ہوگا تاکہ مادیت پرست یہودی ابتدا ہی سے مسیح (علیہ السلام) سے متعارف ہوجائیں ۔ واقعات کا یہ رنگ بتارہا ہے کہ یہ چیزیں بالکل بطور خرق عادت کے ہیں ، عام واقعات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق جان لینے کے بعد قدرت کی وسعتوں کو خاص صورتوں اور شکلوں میں محدود سمجھ لینا نادانی ہے ، اللہ چاہے تو آسمان سے انسان برسا سکتا ہے ، زمین سے پیدا کرسکتا ہے وہ پہاڑوں کی صلابت کو روئی کی سی نرمی سے تبدیل کر دے تو کون مانع ہو سکتا ہے ، پھر ایک عورت کے پیٹ سے بچے کا تولد کیوں حیرت انگیز ہو ۔ خدا کے کام کچھ آلات پر نہیں موقوف ابو البشر ہوئے بےمادر وپدر پیدا ۔ حل لغات : انتبذت : علیحدگی اختیار کرنا ، الگ ہوکر ۔ نبذ سے مشتق ہے ، بغیا : بدکار ۔