يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
اے پیغمبر ! تم سے لوگ شراب اور جوے کی بابت دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دو، ان دونوں چیزوں میں نقصان بہت ہے اور انسان کے لیے فائدے بھی ہیں۔ لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے اور تم سے پوچھتے ہیں (راہ حق میں خرچ کریں تو) کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو جس قدر (تمہاری ضروریات معیشت سے) فاضل ہو۔ دیکھو اللہ اس طرح کے احکام دے کر تم پر اپنی نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ دنیا اور آخرت (دونوں) کی مصلحتوں میں غور و فکر کرو
شراب اور جوا : (ف ٣) اسلام سے پہلے جوئے اور شراب کے سختی سے عادی تھے اور وہ شخص جو شراب نہ پئے اور جوا نہ کھیلے اسے کہتے تھے ‘ یہ ” برم “ ہے یعنی کمینہ ہے اور سوسائٹی کے لئے باعث توہین ہے ۔ حضرت عمر (رض) جو انوار نبوت کے اکتساب میں یدطولی رکھتے تھے اس کو بہت برا جانتے تھے ، انہوں نے دعا کی ، اے اللہ ! شراب کے متعلق فیصلہ کن حکم نازل فرما ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ شراب اور جوئے میں گو عارضی فائدے بہت ہیں ، لیکن مستقل نقصان کہیں زیادہ ہے ، اس لئے یہ دونوں چیزیں بری ہیں ۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے فرمایا ، اس سے بھی زیادہ واضح حکم نازل ہو تو سورۃ نساء کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ مگر اس میں بھی تھوڑی سی رعایت تھی ، اس لئے پھر مطالبہ کیا گیا تو آخری اور فیصلہ کن آیت نازل ہوئی کہ (آیت) ” فھل انتم منتھون “ کہ رکتے بھی ہو یہ نہیں ۔ اس پر انتھینا انتھینا کی صدائیں بلند ہوئیں ، ساغر ومینا کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے اور صدیوں کے رسیا ایک دم پارسا بن گئے یہ اسلام کا اعجاز ہے ۔ حل لغات : یرتدد : ارتداد ، پھر جانا ۔ الخمر : ہر وہ چیز جو دماغ وعقل کو بےقابو کر دے ۔ میسر : جوا ۔ قمار بازی ۔ (ف ١) جوئے اور شراب کی حرمت کے بعد جذبہ سخاوت کو کہاں صرف کیا جائے ، ان آیات میں اس کا جواب دیا ہے کہ جو ضروریات سے زائد ہو ، اسے شراب وقمار کی بجائے نیک کاموں میں صرف کرو ۔