سورة الكهف - آیت 77

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ دونوں اور آگے بڑھے، یہاں تک کہ ایک گاؤں کے پاس پہنچے، گاؤں والے سے کہا ہمارے کھانے کا انتظام کرو، انہوں نے مہمان نوازی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ پھر ان دونوں نے دیکھا گاؤں میں ایک (پرانی) دیوار ہے اور گرا چاہتی ہے، یہ دیکھ کر موسیٰ کے ساتھی نے (اس کی مرمت شروع کردی اور) اسے ازسرنو مضبوط کردیا۔ اس پر موسیٰ (سے نہ رہا گیا) بول اٹھا اگر آپ چاہتے تو اس محنت کا کچھ معاوضہ ان لوگوں سے وصول کرتے (بغیر معاوضہ کے بے کار کی محنت کیوں کی؟)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت خضر (علیہ السلام) کا حسن سلوک اور گاؤں والوں کی بدبختی : (ف1) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) طویل مسافت طے کرنے کے بعد ایک گاؤں میں پہنچے بھوک سے بےقرار ہو رہے تھے ، گاؤں والوں سے کہا کہ ہم مسافر ہیں ، ہمیں اپنا مہمان بناؤ ، انہوں نے ازراہ شقاوت انکار کردیا اور شرف مہمان نوازی سے محروم رہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) ان کی اس حرکت سے قطعا ملول نہ ہوئے ، اتفاق سے ایک دیوار پر نظر پڑی ، تو دیکھا کہ کہنگی اور بوسیدگی کے باعث گر رہی ہے آپ اٹھے اور اس کی تعمیر میں مصروف ہوگئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے روکا اور کہا جو گاؤں اخلاق کی مبادیات سے بھی ناواقف ہے اور اس درجہ بداخلاق ہے کہ مسافر کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتا وہ ہرگز اس ہمدردی اور حسن سلوک کا مستحق نہیں ، آپ کو اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو کم از کم اپنی محنت کا معاوضہ تو مانگ لیجئے ، کیونکہ مزدوری مقرر کرلینے میں شرفاء کو کوئی حرج نہیں ، حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا ، بس اب نصیحت رہنے دیجئے ، آپ کے ساتھ میری نہیں نبھ سکتی ، لہذا رفاقت ہوچکی ، اب میں یہ بتائے دیتا ہوں کہ میں نے افعال کیوں کئے اس کے بعد مجھ میں اور آپ میں جدائی ہے ، اس زمانے میں نہ ہوٹل تھے ، نہ آمد ورفت میں آسانیاں تھیں ، کہ سفر کرنے والے کثرت سے ہوں ، اور شہروں میں مسافروں کا ہجوم رہے ، فائدہ یہ تھا کہ شدید حادثات کے تحت اگر کوئی شخص سفر اختیار کرتا تو راستے میں جو گاؤں پڑے ، وہاں کے لوگ رسما اس کی مہمان نوازی کے لئے تیار رہتے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے انہیں حالات کے ماتحت اور اسی حق کی بنا پر ضیافت کا مطالبہ کیا ، ورنہ اس قسم کی استدعاء انبیاء کی بلندی کے یکسر منافی ہے ؟ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء بھی از دیاد علم کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور علم کے لئے کوئی آخری حد مقرر نہیں کی جا سکتی ، علم ایک سمندر ہے ناپیدا کنار ، بجز اللہ تعالیٰ کے ہر شخص ہر حالت میں محدود علم کا مالک ہے ، اور اسے ضرورت ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے ۔ حل لغات : يُرِيدُ: دیوار کیلئے بطور مجازا محاورہ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔