سورة الكهف - آیت 22

سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کچھ لوگ کہیں گے غار والے تین آدمی تھے، چوتھا ان کا کتا تھا۔ کچھ لوگ ایسا بھی کہتے ہیں نہیں پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا، یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں، بعض کہتے ہیں سات تھے، آٹھواں ان کا کتا، (اے پیغمبر) کہہ دے ان کی اصل گنتی تو میرا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ان کا حال بہت کم لوگوں کے علم میں آیا ہے۔ (اور جب صورت حال یہ ہے) تو لوگوں سے اس بارے میں بھث و نزاع نہ کر، مگر صرف اس حد تک کہ صاف صاف بات میں ہو۔ (یعنی باریکیوں میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کتنے آدمی تھے کتنے دنوں تک رہے تھے) اور نہ ان لوگوں میں سے کسی سے اس بارے میں کچھ دریافت کر۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) قرآن حکیم میں اور بائبل میں بہت بڑا مابہ الامتیاز ہے کہ بائبل میں غیر ضروری جزئیات وتفصیلات مذکور ہوتی ہیں اور قرآن صرف مغز واصل پر اکتفا کرتا ہے ، قرآن کا مقصد یہ ہے کہ ایام اللہ یا واقعات کو عبرت آموز طریق سے بیان کیا جائے اس لئے وہ تفصیلات کو نظر انداز کرتا ہے ۔ اصحاب کہف کی زندگی کا وہ پہلو جو ہمارے لئے سبق آموز ہو سکتا تھا ، بیان فرما دیا ، اب اس بات کی بحث کہ اصحاب کہف کون کون شخص تھے ، تعداد کیا تھی ، بالکل غیر ضروری ہے ، اس نوع کی تفصیلات بسا اوقات اس روح ومقصد سے دور کردیتی ہے ، جس کی وجہ سے قصہ بیان کیا گیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی تعداد بہت کم لوگ جانتے ہیں آپ بھی اس میں زیادہ جستجو نہ کریں ، کیونکہ جہاں تک غرض اور نصب العین کا تعلق تھا ، واضح کردیا گیا ، آپ اسی قدر معلومات پر اکتفا کریں ، جو وحی کے ذریعہ بتادی گئی ہیں ۔ حل لغات: رَجْمًا بِالْغَيْبِ: تخمین و اندازہ ، اٹکل پچو ۔ تُمَارِ: مراء سے ہے جس کے معنی بحث کرنا ہے ، مقصد یہ ہے کہ آپ اس میں بحث ومباحثہ نہ کریں اصل روح کے سمجھنے کی کوشش کریں۔