سورة الإسراء - آیت 100

قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) کہہ دے اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے اختیار میں ہوتے تو تم ضرور خرچ ہوجانے کے ڈر سے انہیں روکے رکھتے (لیکن وہ اپنی رحمت کا فیضان روکنے والا نہیں، اس کی بخششیں اتنی نبی تلی نہیں ہیں کہ صرف دنیا کی چند روزہ زندگی ہی میں خرچ ہوجائیں) حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی تنگ دل ہے (وہ رحمت الہی کی وسعت کا اندازہ نہیں کرسکتا)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) اس آیت میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ دراصل اس قسم کے شبہات تمہارے دل میں اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ تمہیں ان مسائل کے سمجھنے میں الجھن ہوتی ہے یا یہ مسائل ناقابل فہم ہیں ، بلکہ یہ انکار وتمرد محض اس لئے ہے کہ تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو فراخدلی کے ساتھ برداشت نہیں کرسکے ، تمہارے دلوں میں بخل ہے اور تم نہیں چاہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں ان معارف کو ہرکس و ناکس کے سامنے پیش کریں اس میں تم اپنی توہین سمجھتے ہو نبوت کے خزانے اگر تمہیں ہلتے تو تم اس دریا دلی سے ہرگز خرچ کرتے تمہیں رنج ہے ، تو یہ ہے کہ ہدایت عام ہوئی جاتی ہے ، اور تم بڑے بڑے لوگوں کے لئے کوئی وجہ تخصیص نہی رہی ۔ بات یہ ہے کہ انسان فطرتا بخل پسند ہے ، کشادہ دلی کے ساتھ دوسروں کی خوبیاں تسلیم نہیں کرتا ، اور ایک شخص کے فضائل ومحاسن کا محض اس لئے انکار کردیتا ہے ، کہ وہ خود کیوں ان سے متصف نہیں ۔ حل لغات : قتورا : بخیل ، تنگ دل ، قتر سے بنا ہے جس کے معنی تنگی اور ضیق کے ہیں ۔ تسع ایت : تو معجزے جو فرعون کو دکھائے گے تھے ،