قُل لَّوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَّابْتَغَوْا إِلَىٰ ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا
(اے پیغمبر) تم کہہ دو، اگر اللہ کے ساتھ اور بہت سے معبود ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس صورت میں ضروری تھا کہ وہ فورا صاحب تخت ہستی تک (مقابلہ کی) راہ نکال لیتے (اور کارخانہ ہستی میں فساد پڑجاتا۔
(ف ١) اللہ کی توحید خالص اسلامی عقیدہ ہے ، جس کو قرآن حکیم نے مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے ، کبھی مظاہر فطرت کی یکسائی کو تائید میں پیش کیا کبھی خود نفس انسانی کی بوالعجیبوں کی طرف توجہ دلائی کبھی مشرکین کے عقائد کی تردید کی ، اور فرمایا کہ شرک عقلا محال ہے چنانچہ اس آیت میں مشرکین کے عقیدہ شرک پر اعتراض کیا ہے ارشاد ہے کہ اگر واقعی یہ بت خدا ہیں ، جنہیں تم پوجتے ہو ، تو پھر ہونا یہ چاہئے کہ انہیں صاحب عرش کا قرب خاص حاصل ہو ، اور اللہ کے نزدیک یہ ذی مرتبت وجاہت ہوں ورنہ تمہیں یہ قرب کیونکہ عطا کروا سکتے ہیں ؟ جبکہ خود درجہ قرب سے محروم ہیں ، آیت کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ مگر اللہ کے سوا اور خدا بھی موجود ہیں تو پھر اللہ کے ساتھ انہیں ہر بات میں تعرج کرنا چاہئے ، لڑائی اور فساد ہونا چاہئے ، اور پھر اس صورت تخالف میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجاؤ لازم ہوا ۔