سورة الإسراء - آیت 20

كُلًّا نُّمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ۚ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہم ہر فریق کو اپنی پروردگاری کی بخشائشوں سے (دنیا میں) مدد دیتے ہیں، ان کو بھی (کہ صرف دنیا ہی کے پیچھے پڑگئے) اور ان کو بھی (کہ آخرت کے طالب ہوئے اور راہ حق پر چلے) اور (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کی بخشش عام کسی پر بند نہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نیکی اور برائی دونوں کے لئے یکسان مواقع موجود ہیں : (ف ١) اللہ نے دنیا میں دو قسم کے گروہ پیدا کئے ہیں ، ایک وہ ہے جس کا نصب العین دین کی بھلائیوں کو حاصل کرنا ہے ، جو اپنی تمام قوتوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہے ، جس کا مقصد حیات گلشن اسلام کی آبیاری ہے ، اور دوسرا وہ ہے جو دن رات دنیا طلبی میں مصروف رہتا ہے ، جس کی تگ ودو محض نفس کی خواہشات تک محدود ہے ، اور آخرت سے بےپروا اور غافل ہے ۔ اللہ اس گروہ کو جو طالب حق ہے ، دیندار ہے ، پاکبازی اور تدبن کی توفیق عنایت فرماتا ہے ، اور ان کی مشکلات میں راہنمائی فرماتا ہے ، اور وہ جو صرف جیفہ دنیا کا گرویدہ ہے ، جس کی کوتاہ ہمتی اسے دنیا کی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیتی ہمیشہ برائی کے لئے کوشاں رہتا ہے ، اور اللہ نے ایسے سامان پیدا کر رکھے ہیں کہ اسے طریق معصیت میں بھی لذت ملتی ہیں ۔ (آیت) ” کلا نمد ھؤلآئ“۔ کے یہی معنی ہیں ، کہ اللہ نے انسانی فطرت اور دنیا کو اس ڈھب پر بنایا ہے کہ نیکی اور برائی دونوں کے لئے مواقع اور تسہیلات ہیں ، پاکباز انسان نیک مواقع سے استفادہ کرتا ہے ، اور بدکردار برے حالات سے بہرہ حاصل کرتا ہے ، کیونکہ دنیا کا نظام یا کارگاہ فطرت دونوں کے لئے یکساں معین ومددگار ہیں ۔ حل لغات : العاجلۃ : دنیا ۔ محظورا : منقوص ، یا ممنوع ۔