سورة النحل - آیت 102

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ میرے جی کی بناوٹ نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے) یہ تو فی الحقیقت تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس نے اتاری ہے اور اس لیے اتاری ہے کہ ایمان والوں کے دل جما دے، فرمانبردار بندوں کے لیے رہنمائی اور (نجات و سعادت کی) خوشخبری۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

قرآن اختراع نہیں ہے : (ف ١) بعض لوگ کہتے تھے کہ قرآن دماغی اختراع ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اختراع کیا ہے ، اور اللہ کی جانب اسے منسوب کردیا ہے اس کا جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے روح القدس لے کر آئے ہیں ، یہ حق وصداقت کا اعلان ہے ، تاکہ جو لوگ ذہنی وقلبی اضطراب میں مبتلا ہیں ان کی تسلی وتسکین ہو ، اس میں ہدایت ہی بشارت ہے ، مگر ایمان وتجربہ شرط ہے ۔ وہ کتاب جس نے قوم کے اخلاق کو بدل دیا ہو ، جس نے گمراہی وضلالت سے نکالا ہو ، رشد وہدایت کی طرف راہنمائی کی ہو ، اور قوم کو خوشخبریوں کا صبط بنایا ہو ، کیا وہ دماغی اختراع ہو سکتی ہے ۔ ؟ کیا یہ اختراع اور جھوٹ کا نتیجہ ہے کہ قوم ترقی کے فراز اعلی تک پہنچ گئی ؟ پستی اور حضیض سے نکل کر ایمان کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن ہوگئی ، کیا جھوٹ میں یہ قوت ہے ، کہ اخلاق کو بدل دے ، عادات کو سنوار دے ، ذہنوں کو بلند کر دے ، اور خاص نو کے ارتقاء کو بیدار کر دے ۔