يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے پیغمبر لوگ تم سے (مہینوں کی) چاند رات کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے ہہ دو یہ انسان کے لیے وقت کا حساب ہے اور اس سے حج کے مہینے کا تعین ہوجاتا ہے (باقی جس قدر توہمات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی رسمیں اختیار کر رکھی ہیں تو ان کی کوئی اصلیت نہیں) اور یہ کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں (دروازہ چھوڑ کر) پچھواڑے سے داخل ہو) جیسا کہ عرب کی رسم تھی کہ حج کے مہینے کا چاند دیکھ لیتے اور احرام باندھ لینے کے بعد اگر گھروں میں داخل ہونا چاہتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے، پچھواڑے سے راہ نکال کر جاتے) نیکی تو اس کے لیے ہے جس نے اپنے اندر تقوی پیدا کیا۔ پس (ان وہم پرستیوں میں مبتلا نہ ہو) گھروں میں آؤ تو دروازے ہی کی راہ آؤ۔ (پچھواڑے سے راہ نکالنے کی مصیبت میں کیوں پڑو) البتہ اللہ کی نافرمانی سے بچو تاکہ (طلب سعادت میں) کامیاب ہو
قمری مہینوں کا فلسفہ : (ف2) معاذ بن جبل (رض) اور ثعلبہ بن عتبہ (رض) نے سوال کیا کہ حضور (ﷺ) چاند کیوں بڑھتا اور گھٹتا ہے ، اس پر یہ جواب دیا گیا کہ﴿قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ﴾ یعنی بجائے اس کے کہ تفصیل بیان کی جائے ، حکمت و فلسفہ بیان کردیا اور اس طریق سے یہ بتایا کہ سوال غلط ہے ، یہ مذہب کے موضوع سے متعلق نہیں ، البتہ یہ پوچھ سکتے ہو کہ چاند کے بڑھنے اور گھٹنے سے شرعی طور پر کیا فوائد مرتب ہوتے ہیں ؟ اسلام نے حج ، صوم اور دیگر ضروریات دین کے لئے قمری مہینوں کو پسند فرمایا ہے ، حالانکہ شمسی مہینے زیادہ واضح اور متعین ہوتے ہیں ، اس کی متعدد وجوہ ہیں : (1) اس لئے کہ اسلام دین فطرت ہے جس میں اہل حضر سے لے کر اہل بادیہ تک سب لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے شمسی مہینے شہر کے متمدن لوگوں کو تو معلوم ہو سکتے ہیں لیکن خانہ بدوش اور غیر شہری نہیں جان سکتے ۔ (2) اس لئے بھی کہ اسلام کا مقصد صرف تعین وتقرر ہی نہیں ، جبکہ تشویق وترغیب بھی ہے ، مثلا رمضان اگر شمسی تاریخوں میں ہوتا تو بلا کسی انتظار کے کھٹ سے آموجود ہوتا اور اس وجہ سے دلوں میں پہلے سے کوئی شوق واضطراب نہ ہوتا لیکن اب لوگ ماہ صیام کا چاند دیکھنے کے لئے بےتاب ہوجاتے ہیں اور اس طرح طبیعتوں میں ماہ صیام کے لئے زبردست شوق پیدا ہوجاتا ہے یعنی مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور خود بخود تحریک بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ (3) پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے موسم بدلتے رہتے ہیں ، شمسی مہینوں میں رمضان ہمیشہ ایک ہی موسم میں ہوا کرتا ، یا گرما میں یا سرما میں ، اس طریق سے موقع ملتا ہے اور تنوع قائم رہتا ہے ، ان اسباب وجوہ کی بنا پر ضروری تھا کہ مہینوں کا حساب چاند سے متعلق ہو ۔ (ف3) انصار جب اثنائے حج میں گھروں کو لوٹتے تو دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے ، بلکہ پچھواڑے سے دیواریں پھاند کر آتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ محرم کے سر پر سوا آسمان کے اور کسی چیز کا سایہ نہ ہونا چاہئے قرآن حکیم نے بتایا کہ یہ محض وہم ہے ، دروازوں سے داخل ہونا بہت ہے ۔ حج کا مقصد تو تقوی واصلاح کے جذبات کو پیدا کرنا ہے ، وہ ان اوہام وظنون سے پیدا نہیں ہوتے ، ہوسکتا ہے یہ ایک ضرب المثل ہو ، مطلب یہ ہے کہ ہر کام اس طریق سے کرنا چاہئے جو درست وصحیح ہو اور جس کام سے کوئی فائدہ ہوتا ہو ، بیکار کاوش سے کیا حاصل ؟ پہلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہوگا کہ چاند کے متعلق ایسے سوال کرنا جو شرعی لحاظ سے غیر صحیح اور غیر مفید ہیں ، محض بےسود ہے تم یہ پوچھو کہ قمری مہینوں میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟