وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور (دیکھو) ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھاؤ اور نہ ایسا کرو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہنچنے کا (یعنی انہیں اپنی طرف مائل کرنے کا) ذریعہ بناؤ۔ تاکہ دوسروں کے مال کا کوئی حصہ ناحق حاصل کرلو۔ اور تم جانتے ہو کہ حقیقت حال کیا ہے
(ف1) ان آیات میں نیک چلن رہنے کی تلقین فرمائی ہے اس لئے کہ روزہ مقصد ہی کردار واخلاق میں پاکیزگی پیدا کرنا ہے ، فرمایا کہ باطل اور مضر اخلاق وسائل سے روپیہ حاصل نہ کرو یعنی خواہ مخواہ کی مقدمہ بازی اور دلالی جس سے مقصود روپیہ کا حصول ہو ، ناجائز ہے ۔ وکالت کی موجودہ صورت جس میں صرف قانون کی نزاکت اور لچک کا خیال رکھا جاتا ہے ، اس ضمن آجاتی ہے موجودہ تہذیب کی متعدد لعنتوں میں سے ایک لعنت وکالت بھی ہے جو قوم کے اخلاق کو بدرجہ غائت تباہ کرنے والی ہے ، اس کا مقصد اکثر جلب زر ہوتا ہے ، چاہے کسی سچے انسان کا خون ہوجائے ، ان آیات میں تصریح موجود ہے کہ کسی جرم کے علم ہوجانے کے بعد اس کی حمایت ناجائز ہے ، صرف یہ عذر کہ قانون میں گنجائش ہے ، کافی نہیں ، اس لئے وکلاء یقینا جانتے ہیں کہ بعض اوقات قانون کے الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے یا کم از کم ان کا منشا یہ نہیں ۔ اس لئے اسلام کے نظام عدالت میں پیشہ ور وکیلوں کا کہیں ذکر نہیں ۔ کیونکہ اس سے براہ راست جرائم پھیلتے ہیں ۔ جب مجرم کو یہ معلوم ہو کہ ہر جرم کے لئے چاہے وہ کتنا ہی سنگین ہو ‘ ایک قابل وکیل مل سکتا ہے جو اس کا جرم ثابت نہ ہونے دے گا تو اس کے شوق جرم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح دنیا میں جرائم کی افزائش ہوتی ہے جو عدل وانصاف کے خلاف ہے ۔