سورة النحل - آیت 35

وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور مشرکوں نے کہا اگر اللہ چاہتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا کہ ہم یا ہمارے باپ دادا اس کے سوا دوسری ہستیوں کی پوجا کرتے اور نہ ایسا ہوتا کہ بغیر اس کے حکم کے کسی چیز کو (اپنے جی سے) حرام ٹھہرا لیتے ایسی ہی روش ان لوگوں نے بھی اختیار کی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ پھر (بتلاؤ) پیغبروں کے زمے اس کے سوا اور کیا ہے کہ صاف صاف پیام حق پہنچا دیں؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا ہم مجبور ہیں ؟ : (ف ١) مشرکین کو ایک شبہ یہ تھا کہ نبوت کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جب کہ ہم سب معصیت پر مجبور ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ چاہتے کہ ہم شرک کی آلودگیوں میں مبتلا نہ ہوں ، اور اپنی مرضی سے چیزوں کو حلال وحرام نہ ٹھہرائیں ، تو بھلا یہ کب ہو سکتا تھا کہ ہم شرک کا ارتکاب کرتے ، اللہ نہ چاہے اور ہم کریں ، یہ کیونکر ممکن ہے ، گویا مسئلہ جبر کو ان لوگوں نے بربنائے جہالت انکار کا سبب بنایا ۔ اس شبہ کو اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات میں ذکر فرمایا ہے سورۃ انعام میں ہے (آیت) ” لوشآء اللہ ما اشرکنا ولا ابآء نا “۔ یعنی اگر ہم مشرک ہیں تو معاذ اللہ یہ اللہ کا قصور ہے ، وہ ہمیں موحد پیدا کرتا ، اس نے کیوں ہمیں سمجھ بوجھ نہ دی ؟ کیوں توفیق نہ ملی ، کہ ہدایت کو قبول کریں ، اور ضلالت کو چھوڑ دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہے ، کہ انبیاء کا کام تم تک آواز حق کو پہنچا دینا ہے ماننا یا نہ ماننا تمہارے اختیار میں ہے ، اللہ نے تمہیں مجبور پیدا نہیں کیا بلکہ بڑی حد تک مختار پیدا کیا ہے ، جبھی تو انبیاء اور رسول بھیجے ہیں ، تاکہ تم کو گمراہی کے گڑھے سے نکالیں ، اور ہدایت کے بلند بام پر لا بٹھائیں ، اللہ چاہتا تو یہی ہے کہ تم سب کے سب رشد وہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑ لو ، اس نے تمہیں آزاد پیدا کیا ، اور اختیار دیا ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کرو ، یانہ کرو ، البتہ بعض حالات میں انسان مجبور بھی ہوتا ہے ، مگر یہ صحیح نہیں کہ وہ سب باتوں میں مجبور ہوتا ہے ، اللہ کی گرفت اس حد تک ہے ، جہاں تک اختیار کا تعلق ہے ۔ پس یہ اعتراض کسی صورت سے درست نہیں ہوسکتا ۔