أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
تمہارے لیے یہ بات جائز کردی گئی ہے کہ روزہ کے دنوں میں رات کے وقت اپنی بیویوں سے خلوت کرو۔ تم میں اور ان میں چولی دامن کا ساتھ ہے (یعنی ان کی زندگی تم سے وابستہ ہے۔ تمہاری ان سے) اللہ کے علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہے کہ تم اپنے اندر ایک بات کا خیال رکھ کر پھر اس کی بجا آوری میں خیانت کررہے ہو (یعنی اپنے ضمیر کی خیانت کر رہے ہو۔ کیونکہ اگرچہ اس بات میں برائی نہ تھی مگر تم نے خیال کرلیا تھا کہ برائی ہے) پس اس نے (اپنے فضل و کرم سے تمہیں اس غلطی کے لیے جو اب وہ نہیں ٹھہرایا) تمہاری ندامت قبول کرلی اور تمہاری خطا بخش دی۔ اور اب ( کہ یہ معاملہ صفا کردیا گیا ہے) تم (بغیر کسی اندیشہ کے) اپنی بیویوں سے خلوت کرو اور جو کچھ تمہارے لیے (ازدواجی زندگی میں) اللہ نے ٹھہرا دیا ہے اس کے خواہش مند ہو۔ اور (اسی طرح رات کے وقت کھانے پینے کی بھی کوئی روک نہیں) شوق سے کھاؤ پیو۔ یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) کالی دھاری سے الگ نمایاں ہوجائے (یعنی صبح کی سب سے پہلی نمود شروع ہوجائے) پھر اس وقت سے لے کر رات (شروع ہونے) تک روزے کا وقت پورا کرنا چاہیے۔ البتہ اگر تم مسجد میں اعتکاف کررہے ہو تو اس حالت میں نہیں چاہے کہ اپنی بیویوں سے خلوت کرو ( جہاں تک روزے کا تعلق ہے) یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں پس ان سے دور دور رہنا۔ اللہ اسی طرح اپنے احکام واضح کردیتا ہے تاکہ لوگ (نافرمانی سے) بچیں
روزہ کا مقصد : (ف3) ازدواجی تعلقات کو رات کے وقت برقرار رکھىنا قرآن حکیم نے جائز ومباح قرار دیا ، اس لئے کہ روزہ کا مقصد رہبانیت یا فاقہ نہیں ، بلکہ تحسین اخلاق ہے اور کیا بیوی سے پیار بہترین اور پاکیزہ تر حسن اخلاق نہیں ؟ حدیث میں جو آتا ہے کہ دن کے وقت بھی حضور (ﷺ) ازواج مطہرات سے محبانہ پیش آتے اور بوس وکنار میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے تھے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ روزہ زاہدانہ یبوست نہیں ، خشک ریاضت نہیں بلکہ ہر خواہش میں اور ہر جذبہ میں تابحد لطافت اعتدال پیدا کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کھانا پینا ممنوع ہے لیکن نہانا دھونا اور دیگر پاک تفریح کی چیزوں کی اجازت دیتا ہے اسی طرح صنفی جذبات کی تکمیل تو ممنوع ہے دن کو البتہ لطافت کے ساتھ ان کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ، رات کو بھی تکمیل میں کوئی مضائقہ نہیں ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ روزہ ایک قسم کی شگفتہ ریاضت ہے اسلام فطرت انسانی کا بہترین نمونہ اور نباض ہے اس میں اس کی تمام کمزوریاں ملحوظ رکھی گئی ہیں اور کہیں بھی ناقابل برداشت تکلیف نہیں دی گئی ، وظائف زوجیت بھی ایک خلقی وفطری ضرورت ہے ، جس سے بےنیازی ناممکن ہے اور یا مضر ہے۔اس لئے اس ناگریز حقیقت کو ان الفاظ میں ظاہر کیا کہ تم میں اور عورتوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے کس طرح تم ایک دوسرے سے الگ رہ سکتے ہو ؟ عورت کا درجہ : (ف1) ﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ﴾کہہ کر فلسفہ تدبیر منزل کے بہترین نکات بتائے ہیں ، قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ باتوں ہی باتوں میں معاشرت واخلاق کی مشکل ترین گتھیاں سلجھا دیتا ہے ، لباس کی تین اغراض ہوتی ہیں ۔ : (1) بچاؤ ۔ (2) اخفائے ستر ۔ (3) تزئین وآرائش ۔ اس لئے گویا مرد و عورت کی حیثیت صحیح معنوں میں شریک حیات کی ہے ، دونوں ایک دوسرے کے لئے لباس کی مانند زمانہ کے سرد وگرم کا مقابلہ کرنے والے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے عیب پوش باعث عزت وآبرو ہیں اور دونوں کے وجود سے سوسائٹی کی عزت وآبرو ہے ، کس خوبصورتی سے قرآن حکیم نے دونوں کے منصب وفرائض کی تشریح فرمائی ہے ، تاکہ ان میں کوئی ایک دوسرے سے بےنیاز نہ رہ سکے ۔ عام مسائل : روزہ میں سحری دیر سے کھانا اور افطار میں جلدی کرنا مسنون ہے کیونکہ مقصد اطاعت ہے مشقت نہیں ، کھانے پینے کی چیزیں استعمال کرنا ممنوع ہے ، مسواک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ رات کو تراویح پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے ، حدیث میں آتا ہے ، آپ نے فرمایا کہ ’’مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ‘‘یعنی جو شخص رمضان میں قیام لیل کو اختیار کرے گا اور شرائط عبادت کو ملحوظ رکھے گا ۔ اللہ اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔حل لغات : تَخْتَانُونَ: مادہ خیانت بمعنی نقصان یعنی تم اپنے جائز فطری حق سے محروم تھے ۔