سورة الحجر - آیت 55

قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

انہوں نے کہا ہم نے تمہیں سچائی کے ساتھ خوشخبری سنائی، پس تمہیں ناامید نہ ہونا چاہیے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) قرآن حکیم کا یہ مخصوص شیوہ بیان ہے کہ احکام کا ذکر کرتے ہوئے عبروبصائر کا انبار لگا دیتا ہے ، اور درمیان میں قوام وملل کے قصص بھی بیان کرتا جاتا ہے کہ حالات کا موازنہ ہوتا رہے ۔ اس سے قبل دعوت رسالت کا ذکر تھا ، پھر مکے والوں کے تعصب کو بیان کیا ، پھر نوع انسانی کو اپنے ابتدائی حالات کی جانب توجہ دلائی ، تاکہ وہ اپنے اصلی مقام کو پہچانیں ، اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اور قوم لوط (علیہ السلام) کے حالات ہیں ، ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں ﴿ أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ کی تشریح ہے ، اور قوم لوط (علیہ السلام) کی داستان میں ﴿وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ﴾کی ۔ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جب فرشتے آئے تو انہوں نے سلام عرض کیا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا مگر ڈرتے ڈرتے ، خیال یہ تھا کہ کہیں دشمن اور مخالف نہ ہوں ، انہوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم آپ کے لئے خوشخبری لائے ہیں ، اللہ آپ کو ایک لائق بچہ عنایت فرمانے والے ہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکے اور تعجب سے کہا ، اس بڑھاپے میں اب اولاد ہوگی ، فرشتوں نے سمجھا ، مایوس ہے اس لئے تردیدا انہوں نے کہا ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ، حق اور واقعہ ہے ، آپ مایوس نہ ہوں ، اللہ ضرور آپ کو ایک بچہ مرحمت فرمائیں گے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے معاملہ سمجھ لیا ، اور کہا میں نے بربنائے مایوسی نہیں کہا ، کیونکہ مایوسی تو گمراہی ہے ، بلکہ اس لئے کہ عادتا اس عمر میں اولاد نہیں ہوتی ، اس کے بعد تشریف آوری کی وجہ پوچھی ، انہوں نے کہ ہم قوم لوط (علیہ السلام) کے گناہ گاروں کی جانب آئے ہیں کہ انہیں ہلاکت وتباہی کا پیغام سنائیں اس قصہ میں مندرجہ ذیل اسباب موجود ہیں ۔ (1) مہمان جب آئے پہلے سلام کہے ۔ (2) مہمان کے متعلق کوئی شبہ ہوتو فورا اس کا ازالہ کرلے ۔ (3) خدا کی رحمت سے بہرنوع مایوس نہ ہو ۔ (4) حق بات کو فورا قبول کرلے ۔