قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ
انہوں نے کہا ہم نے تمہیں سچائی کے ساتھ خوشخبری سنائی، پس تمہیں ناامید نہ ہونا چاہیے۔
(ف1) قرآن حکیم کا یہ مخصوص شیوہ بیان ہے کہ احکام کا ذکر کرتے ہوئے عبروبصائر کا انبار لگا دیتا ہے ، اور درمیان میں قوام وملل کے قصص بھی بیان کرتا جاتا ہے کہ حالات کا موازنہ ہوتا رہے ۔ اس سے قبل دعوت رسالت کا ذکر تھا ، پھر مکے والوں کے تعصب کو بیان کیا ، پھر نوع انسانی کو اپنے ابتدائی حالات کی جانب توجہ دلائی ، تاکہ وہ اپنے اصلی مقام کو پہچانیں ، اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اور قوم لوط (علیہ السلام) کے حالات ہیں ، ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں ﴿ أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ کی تشریح ہے ، اور قوم لوط (علیہ السلام) کی داستان میں ﴿وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ﴾کی ۔ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جب فرشتے آئے تو انہوں نے سلام عرض کیا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا مگر ڈرتے ڈرتے ، خیال یہ تھا کہ کہیں دشمن اور مخالف نہ ہوں ، انہوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم آپ کے لئے خوشخبری لائے ہیں ، اللہ آپ کو ایک لائق بچہ عنایت فرمانے والے ہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکے اور تعجب سے کہا ، اس بڑھاپے میں اب اولاد ہوگی ، فرشتوں نے سمجھا ، مایوس ہے اس لئے تردیدا انہوں نے کہا ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ، حق اور واقعہ ہے ، آپ مایوس نہ ہوں ، اللہ ضرور آپ کو ایک بچہ مرحمت فرمائیں گے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے معاملہ سمجھ لیا ، اور کہا میں نے بربنائے مایوسی نہیں کہا ، کیونکہ مایوسی تو گمراہی ہے ، بلکہ اس لئے کہ عادتا اس عمر میں اولاد نہیں ہوتی ، اس کے بعد تشریف آوری کی وجہ پوچھی ، انہوں نے کہ ہم قوم لوط (علیہ السلام) کے گناہ گاروں کی جانب آئے ہیں کہ انہیں ہلاکت وتباہی کا پیغام سنائیں اس قصہ میں مندرجہ ذیل اسباب موجود ہیں ۔ (1) مہمان جب آئے پہلے سلام کہے ۔ (2) مہمان کے متعلق کوئی شبہ ہوتو فورا اس کا ازالہ کرلے ۔ (3) خدا کی رحمت سے بہرنوع مایوس نہ ہو ۔ (4) حق بات کو فورا قبول کرلے ۔