سورة ابراھیم - آیت 18

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا تو ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے راکھ کا ڈھیر کہ آندھی کے دن ہوا لے اڑے، جو کچھ انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ سے) کمایا ہے اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ آئے گا۔ یہی گمراہی کی حالت ہے جو بڑی ہی گہری گمراہی ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شیرازہ اعمال : (ف ٢) اعمال کے لئے ایک شیرازہ کی ضرورت ہے ، اور جب تک یہ شیرازہ موجود نہ ہو ، اعمال میں غرض وترتیب پیدا نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ، کیا اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے ، یہ شیرازہ ایمان صحیح ہے ، ایک دیوانہ ہے اس کے افعال کو کیوں آپ قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اور اس کی تمام حرکتیں کیوں عبث قرار پائی ہیں ۔ اس لئے کہ اس کے اعمال میں شیرازہ عقل موجود نہیں ، اسی طرح وہ شخص جو خیر وعمل صالح کے مفہوم سے آگاہ نہیں جو انسانیت کے صحیح پروگرام سے واقف نہیں کیونکہ صالح قرار دیا جا سکتا ہے ، جبکہ اس کے اعمال میں شیرازہ ایمان موجود نہیں قرآن حکیم نے اس حقیقت کو نہایت عمدہ مثال میں بیان فرمایا ہے ، فرمایا ان کے اعمال عدم وزن اور ثبات وقرار کے لمحات سے یوں ہیں جیسے کوئی شخص پتھر پر راکھ کا ڈھیر جمع کر دے اور آندھی چلنے پر وہ سب کے سب اڑ جائے ، ان کے اعمال بھی اسی طرح کے ہیں ، وہ راکھ کے ڈھیر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ، جب کفر ریاکاری کی آندھیاں چلتی ہیں تو اعمال کی راکھ اڑ جاتی ہے ، اور نشان تک باقی نہیں رہتا ۔