وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ
اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے بھی (بے شمار) پیغمبر قوموں میں پیدا کیے اور (وہ تیری ہی طرح انسان تھے) ہم نے انہیں بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی، اور کسی پیغمبر کے لیے یہ بات نہ ہوئی کہ وہ (خود) کوئی نشانی لا دکھاتا مگر اسی وقت کہ اللہ کا حکم ہوا ہو، ہر وقت کے لیے ایک کتاب ہے۔
ظہور آیات کیلئے ایک وقت مقرر ہے : (ف ١) مکہ والوں کی ذہنیت یہ تھی کہ وہ بات بات پر اظہار عجائب کی خواہش کرتے کبھی کہتے ، یہاں چشمے پھوٹیں ، کبھی کہتے ہمارے اسلاف کو زندہ کر دو کبھی کہتے مکے کے پہاڑ سونے چاندی کے بن جائیں ، غرضیکہ ، خوائے بدرابہانہ ہابسیار ۔ ان دو آیتوں میں قرآن حکیم نے اصولی جواب دیا ہے ، ارشاد ہے کہ اظہار کو ارق کا تعلق منشاء ایزدی سے ہے ، رسول کے اختیار میں نہیں کہ جب چاہے کوئی کرشمہ کر دکھا دے ، یہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے کہ جب مصلحت جائے انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں عجائب وخوارق کا اظہار کر دے ، اس لئے یہ ضرور نہیں کہ رسول تمہاری ہر خواہش کو براہ راست پورا کرے ۔ (آیت) ” لکل اجل کتاب “۔ سے غرض یہ ہے کہ ہر مدت موعود کے لئے جو وقت مقرر ہے ، اسے خدا ہی جانتا ہے ، تم نہیں جانتے یہ غرض نہیں کہ ہر صدی کے بعد رسول کی ضرورت ہے ، یا کتاب شریعت کی حاجت ہے ، یہ مقصود ہے کہ ہر نبوت کے لئے ایک دور ہے جب وہ ختم ہوجائے تو کتاب کا نزول ہوتا ہے یہ سب باتیں ملحدانہ ہیں آیت کے سیاق وسباق کو اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ (آیت) ” یمحوا اللہ ما یشآء ویثبت “ کا بھی یہی مدعا ہے کہ ظہور آیات کے لئے خاص قسم کے حالات وفضا کی ضرورت ہے ، بعض دفعہ وہ گناہوں اور لغزشوں سے درگز کرتا ہے ، اور مہلت دیتا ہے کہ منکرین سنبھل جائیں ، مگر جب توجہ اور رجوع کے تمام درجے ملے ہوجاتے ہیں تو اس وقت وہ عذاب بھیجتا ہے ۔