وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور دیکھو زمین میں (طرح طرح کے) ٹکڑے ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان میں انگور کے باغ ہیں، (غلہ کی) کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں، باہم دگر ملتے جلتے ہوئے اور بعض ایسے کہ ملتے جلتے ہوئے نہیں ہیں، سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں مگر بعض پھلوں کو بعض پر مزہ میں برتری دے دیتے ہیں۔ یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
(ف1) ان آیات میں بھی دعوت غو روفکر ہے کہ یہ لوگ فکر وعقل سے اگر کام لیں تو یقینا مذہب کی پہنائیوں کو پالیں ، یہ غلط ہے کہ فلسفہ وعلوم کے مطالعہ سے انسان ملحد ہوجاتا ہے ، قرآن حکیم اور اسلام کے متعلق تو یہ نظریہ قطعی غلط ہے ، قرآن تو ہر قسم کے لوگوں کو عقل وفکر کی جانب پکار پکار کر مدعو کرتا ہے ، اور کہتا ہے ۔ زمین کے پھیلاؤ کو دیکھو، پہاڑوں اور نہروں کے فوائد پر نظر دوڑاؤ پھلوں کے اقسام ملاحظہ کرو ، دن اور رات کا مشاہدہ کرو ، کیونکہ رات کی تاریکی دن کی تابندگی سے بدل جاتی ہے ، زمین کے مختلف قطعات تمہارے سامنے ہیں ، باغات ہیں کھیت ہیں انگوروں کی چھتریاں ہیں ، کھجوریں ہیں پھر اس پر یہ غور کرو کہ ایک پانی سب کی خوراک ہے مگر کیوں مزے میں سب مختلف ہیں۔ یہ سب باتیں سوچنے کی ہیں مسلمان کے علم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صرف خشک مسائل ہی تک محدود نہ ہو ، بلکہ سائنس اور علم الحیات کی آخری حدود تک پھیلا ہوا ہو ۔ حل لغات : مُتَجَاوِرَاتٌ: ملے جلے ۔ صِنْوَانٌ: جمع صنو ۔ شاخ فرع ایک جڑ سے کئی درخت نکلے ہوئے ۔