إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
بلاشبہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اور جہاز میں جو انسان کی کار براریوں کے لیے سمندر میں چلتا ہے، اور برسات میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی (آب پاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین کے پھیلاؤ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہواؤں کے (مختلف رخ) پھرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے ہوئے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھنے والے ہیں (اللہ کی ہستی و یگانگی اور اس کے قوانین رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں
قرآن کا اسلوب تفہیم : (ف ١) قرآن کا طرز استدلال اس قدر جاذب ، فطری اور سادہ ہے کہ منطق ہزار جان سے بلائیں لیتی ہے ۔ وہ مصنوعی اصطلاحات کے گورکھ دھندوں میں ہمیں نہیں پھنساتا ، بلکہ روز مرہ کے اصولیی مشاہدات اس طور پر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے کہ غور وفکر کی تمام قوتیں بیدار ہوجائیں اور معارف وحکم کے دریا بہنے لگیں ، اس طرز استدلال کی مثال یہ ہے کہ وہ سمندر کی تعریف نہیں کرتا اس شخص کے سامنے جس نے سمندر نہیں دیکھا یعنی وہ یہ نہیں کہتا کہ سمندر ایک بہت بڑا ذخیرہ جس نے سمندر نہیں دیکھا یعنی وہ یہ نہیں کہتا کہ سمندر ایک بہت بڑا ذخیرہ آب ہے بلکہ براہ راست طالب کو ساحل سمندر پر لا کھڑا کرتا ہے ، تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے سمندر کے تلاطم و تموج کو دیکھے ، طریق تفہیم اس درجہ کامیاب وصحیح ہے کہ کوئی شخص وشبہ نہیں رہتا ، مثلا ان آیات میں خدا تعالیٰ کو اپنی ذات کا اظہار اور ثبوت بتانا ہے ، یہ بتانا ہے کہ وہ صرف ایک ہے ۔ یہ بتانا ہے کہ کائنات کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور نظام حشر و قیامت ایک حقیقت ثابتہ ہے تو وہ الگ موضوع قائم نہیں کرتا ۔ دلائل کی مصنوعی تحلیل وتقریب میں نہیں الجھتا ، بلکہ مشاہدات کو اس طرح نظروں کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ مضرات عقل میں خود بخود تحریک پیدا ہوجاتی ہے اور ذہن انسانی ان تمام باتوں کو خود بخود جان جاتا ہے اور اس کے بعد بھی غور وفکر کی وسعتیں ختم نہیں ہوتیں ، یعنی وہ کہتا ہے کہ رات ودن کے اختلاف میں ‘ جہاز وکشتی کے چلنے میں ‘ ابروباراں کے حیات بخش ماثرات میں ‘ زمین پر مختلف النوع حیوانات کے رہنے میں ‘ ہواؤں کے ادھر سے ادھر جانے میں اور ابر کی تسخیر میں عقل مندوں کے لئے دلائل ہیں ، دیکھئے کس سادگی سے قرآن حکیم نے کلام وفلسفہ کے تمام مدارج طے کردیئے ہیں ۔ اس حیثیت سے کہ یہ ساری چیزیں ایک افادہ ونظام کے ماتحت ہیں ایک باشعور وباارادہ ذات کو چاہتی ہیں ، یہ اثبات باری ہے اس حیثیت سے کہ ان میں ایک وحدت پر پردہ کار فرما ہے ، توحید کی متقاضی ہیں اور پھر اس لئے کہ ان سب میں ایک نفع ہے مقصد ومنتہا کر چاہتی ہیں ۔ اثبات حشرونشر ہے ۔ کیا کوئی کتاب اتنا بلیغ ، واقعی اور جاذب غور وفکر ، نہج استدلال اپنے طرز تفہیم وتبیین میں رکھتی ہے ۔ ؟ حل لغات : الفلک : کشتی ۔ بث : پھیلایا ، آباد کیا ۔ دآبۃ : ہر جان دار ۔ انداد : شرکاء ، ساجھی ، جمع ند ۔