سورة یوسف - آیت 111

لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یقینا ان لوگوں کے قصہ میں دانشمندوں کے لیے بڑی ہی عبرت ہے۔ یہ کوئی جی سے گھڑی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ اس کتاب کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے آچکی ہے، نیز ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں (ہدایت کی) ساری باتوں کی تفصیل ہے (یعنی الگ الگ کر کے واضح کردینا ہے) اور رہنمائی ہے اور رحمت ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تفصیل کی تفصیل ! (ف ٢) ارشاد فرمایا کہ ان قصص میں صاحب عقل وخرد لوگوں کے لئے عبرت وموعظت کے اسرار پہناں ہیں ، یہ افتراء اور جھوٹ نہیں بلکہ کتب سابقہ کے مضامین ہیں ، جن کو ان کی اصلی حالت میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس پیغام رشد وہدایت میں دین کی تمام گتھیوں کو سلجھایا گیا ہے ، اور تمام مسائل کو اس طرح بسط وتفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ کہ دلوں میں شکوک وشبہات کے کانٹے اب باقی نہیں رہنا چاہئیں یہ واضح رہے ، کہ یہاں جس تفصیل کا ذکر ہے ، وہ اصول سے تعلق رکھتی ہے ، یعنی ضروریات دین کو استیعاب سے بیان کیا گیا ہے ، اور کسی بنیادی اور ضروری مسئلہ کو تشنہ وضاحت نہیں رہنے دیا گیا یہ مقصد نہیں کہ اس میں وہ تفصیلات بھی مذکور ہیں جن کی جستجو ہمیں محنت کے دفتروں میں کرنی چاہئے یا جو جزئیات وفروع سے متعلق ہیں ۔ حال لغات : استایئس : یاس سے ہے ناامید ہوگیا ۔ ظنوا : وہم وگمان سے لے کر خیال غالب اور یقین کے جلب مراتب تک ظن کا لفظ بولا جاتا ہے ۔