سورة یوسف - آیت 103

وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اس پر بھی یاد رکھو) اکثر آدمیوں کا حال یہ ہے کہ تم کتنا ہی چاہو (اور کتنی ہی دلیلیں پیش کرو) کبھی ایمان لانے والے نہیں۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

پیغمبر کی آرزو : (ف1) یعنی اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جہاں تک تمہاری آرزو اور خواہش کا تعلق ہے ، وہ یہی ہے کہ یہ لوگ ایمان وعمل صالح کی دولت سے مالا مال ہوجائیں ، مگر ان کی فطرت کا تقاضا یہ ہے ، کہ رحمت خداوندی سے بہرحال دور رہیں ، اب ہدایت پائیں تو کیونکر ؟ تو سبب ونوررحمت اور غایت شفقت کے یہی چاہتا ہے کہ ان میں کوئی شخص بھی جہنم میں نہ جائے مگر انکو ضد ہے کہ جہنم میں ہی جائیں گے ، ایسی حالت میں اصلاح کی کب توقع ہو سکتی ہے ، فرمایا اصل مرض یہ ہے کہ دلوں پر غفلت وبے توجہی کے پردے پڑے ہیں ، ورنہ یہاں آسمان اور زمین کی مخلوق میں ہر چیز بجائے خود ایک آیت اور دلیل ہے ، اگر یہ غور وفکر سے کام لیں اور زرادماغ پر زور ڈالیں ، تو انہیں معلوم ہوجائے کہ یہ کونین کی نعمتیں جو حضرت انسان کو میسر ہیں ، مفت میں نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ متقاضی ہیں حمد وستائش اور شکر ومدح کی ، مگر یہ ہیں کہ کمال بےالتفاتی سے گزر جاتے ہیں ، انہیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ اس عالم کو کتم عدم سے وجود میں لانے والا خدا ہم سے عبادت کا متوقع ہے ، اور وہ عبادت بھی محض ہماری اصلاح کے لئے ہے ، فرمایا آخر یہ لوگ اس درجہ مطمئن کیوں ہیں ، کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا عذاب ان پر نہیں آئے گا جو ان کو ڈھانپ لے یا ناگہاں قیامت نہیں آئے گی ، یہ بےخوفی ، یہ بےپرواہی اور تغافل آخر کیوں ہے ؟