وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
اور (جب شہر میں داخل ہوئے تو) اس نے اپنے والدین کو تخت پر اونچا بٹھایا (باقی سب کے لیے نیچے نشستیں رکھیں) اور (دیکھو) اس وقت ایسا ہوا کہ سب اس کے آگے سجدے میں گر پڑے (اور مصر کے دستور کے مطابق اس کے منصب حکومت کی تعظیم بجا لائے) اس وقت (اسے بچپنے کا خواب یاد آگیا اور بے اختیار) پکار اٹھا، اے باپ ! یہ ہے تعبیر اس خواب کی جو مدت ہوئی میں نے دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچا ثابت کردیا، یہ اسی کا احسان ہے کہ مجھے قید سے رہائی دے، تم سب کو صحرا سے نکال کر میرے پاس پہنچا دیا اور یہ سب کچھ اس واقعہ کے بعد ہوا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اختلاف ڈال دیا تھا، بلا شبہ میرا پروردگار ان باتوں کے لیے جو کرنی چاہیے بہتر تدبیر کرنے والا ہے، بلاشبہ وہی ہے کہ (سب کچھ) جاننے والا (اور اپنے سارے کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔
(ف2) خالص اسلام یہ ہے کہ جس طرح دکھ اور تکلیف میں انسان اللہ کو اٹھتے بیٹھتے یاد کرتا ہے ، اور ہر پہلو خدا کا نام لیتا ہے ، اسی طرح مسرت کے وقت بھی اس کے احسانات کو بھول نہ جائے ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی خدا پرستی کا بہترین نمونہ ہے ۔ آپ نے تاریک کنوئیں میں اسے پکارا عزیزہ مصر کے ایوان ومحل میں اسے یاد کیا ، اور آج جبکہ وہ سر یر آرائے سلطنت ہیں ، اللہ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں ، یقینا خدا پرستی کا یہی وہ بلند مقام ہے جو انبیاء کے لئے مخصوص ہے ۔