فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
پس (کارندوں کے سردرار نے) ان کی بوریوں کی تلاشی کی، قبل اس کے کہ یوسف کے بھائی (بنیامین) کی پوری کی تلاشی لیتے، اور کچھ نہ پایا) پھر یوسف کے بھائی کی بوری (دیکھی اور اس میں) سے پیالہ نکال لیا، (تو دیکھو) اس طرح ہم نے یوسف کے لیے (بنیامین کو پاس رکھنے کی) تدبیر کردی، وہ بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے ایسا نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے بھائی کو روک لے (اگرچہ ایسا کرنے کے لیے اس کا دل بے قرار تھا) مگر ہاں اسی صورت میں کہ اللہ کو (اس کی راہ نکال دینا) منظور ہوتا (سو اس نے غیبی سامان کر کے راہ نکال دی) ہم جسے چاہتے ہیں مرتبوں میں بلند کردیتے ہیں اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والی ہستی ہے (جس کا علم سب کو احاطہ کیے ہوئے ہے، یعنی اللہ کی ہستی)
حضرت یوسف کا حسن تدبیر : (ف1) حضرت یوسف کے قصہ میں بات صرف یہ ہے کہ بنیامین آپ کا سگا بھائی ہے ، مدت کے بعد ملاقات ہوئی ہے ، آپ بوجہ شفقت ومحبت اسے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں ، اس لئے بہانے سے اسے طلب کیا ہے ، جبرا وقہرا روک لینا مناسب نہیں ، اس لئے ایک تدبیر کی ہے جو نہایت حکیمانہ ہے ، اناج ناپنے کا پیمانہ بنیامین کی بوری میں رکھوا دیا ، اور اس کے بعد تلاش ہوئی ، برادران یوسف کو طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ بادشاہ کا کٹورا غائب ہے ، کہیں تمہارے پاس تو نہیں ہے ، انہوں نے انکار کیا اور صفائی میں کہا تم ہمارے حالات سے آگاہ نہیں ہو ، ہم چور نہیں اور نہ اس غرض سے آئے ہیں کہ ایسی بداخلاقی کا مظاہرہ کریں ، اس کے بعد خود یہ سزا تجویز کی ، کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس تمہارا وہ کٹورہ مل جائے تو تم تمہاری غلامی قبول کرنے کے لئے تیار ہے ، تلاشی کے بعد وہ برتن بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا ، اور حسب معاہدہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اسیر قرار پائے ، اس عجیب وغریب طریقے سے بھائی بھائی سے مل رہا ہے ، راز داری بھی قائم ہے اور اعتراض کی بھی گنجائش نہیں ، اس سے قبل آپ معلوم کرچکے ہیں ، کہ بینامین سے حضرت یوسف (علیہ السلام) متعارف ہوچکے ہیں اور ان سے کہہ چکے ہیں کہ فکر نہ کرو ، میں تمہارا بھائی ہوں ، گویا اس ارادے سے دونوں بھائی واقف ہیں ، اللہ تعالیٰ اس تدبیر کو اپنی جانب منسوب کرتے ہیں ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے نہایت قابلیت سے اس طے شدہ تدبیر کو نبھایا ۔ ظاہر ہے اس قصہ میں کہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا اور نہ تاویل کی ضرورت ہے ، اس میں سچ اور اس کے اخفاء کو جھوٹ سمجھا گیا ہے ، جس سے اعتراض پیدا ہوتے ہیں ، حالانکہ سچ اور جھوٹ کے لئے کچھ اور پہلو بھی غور ہوتے ہیں ۔ جھوٹ نتیجہ ہوتا ہے ، پست ترین جذبہ کے اظہار اور دوسروں کو دکھ دینے کا ، اور یہاں ان دونوں باتوں سے کوئی بات نہیں ، بنیامین پہلے آگاہ نہیں ، اخفاء نیک مقصد کے لئے ہے بھائی اپنے عزیز بھائی کی خاطر ایک تدبیر بروئے کار لاتا ہے اس میں کیا حرج ہے ؟ ، مقصود نیک ہے نتیجہ ومآل مفید ہے ، دو بچھڑے ہوئے بھائی آپس میں مل رہے ہیں ، یہ ایک قسم کا حسن تدبیر ہے ، معاملہ فہمی ہے ، دقیقہ رسی ہے ، کہ اپنے بھائیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بنیامین کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سپرد کردیں ، اس میں کیا مضائقہ ہے ؟ غور طلب یہ حیثیت ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اس وقت حاکم ہیں اس صورت میں ایسے اظہار تدبیر کی ضرورت ہے ، جس سے ان کی قانونی قابلیت نمایاں ہو ، نیز یہ غلط ہے کہ ہر مقام پر صادق کی پوزیشن بہتر ہے ، بعض وقت مقابلہ ہوتا ہے عقل وخرد کا ، اور سادہ سچائی کا ، جو پیش خیمہ ہوتی ہے مصیبتوں کا ، ایسے مقامات میں حزواحتیاط سے تغافل دانائی نہیں ہوتی ، پیغمبر جس قدر صادق القول ہوتے ہیں ، اسی قدر ان میں دانائی وحکمت بھی ہوتی ہے جس سے وہ مخالفین کی گھاتوں کو سمجھتے ہیں ، کھری سچائی جس کے ساتھ عقل کی آمیزش نہ ہو ، حماقت ہے ۔