سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور باپ نے انہیں (چلتے وقت) کہا، اے میرے بیٹو ! دیکھو (جب مصر پہنچو تو شہر کے) ایک ہی دروزے سے داخل نہ ہونا، جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا، میں تمہیں کسی ایسی بات سے نہیں بچا سکتا جو اللہ کے حکم سے ہونے والی ہو (لیکن اپنی طرف سے حتی المقدور احتیاط کی ساری تدبیریں کرنی چاہیں) فرماں روائی کسی کے لیے نہیں ہے مگر اللہ کے لیے (دنیا کے سارے حکمرانوں کی طاقت اس کے آگے ہیچ ہے) میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی ہے جس پر تمام بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا خطرہ : (ف2) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی یہ احتیاط کہ لڑکے مصر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں ، اس حکمت خرم پر مبنی ہے کہ اس طرح اہل شہر کے دلوں میں خدا جانے کیا کیا شکوک پیدا ہوں اور لوگ اجنبیوں اور مسافروں کو ایک گروہ کی شکل میں دیکھ کر کہیں شبہ میں گرفتار نہ کرا دیں ، اور قبل اس کے کہ وہ عزیز مصر تک پہنچیں مختلف بدظنیوں کا شکار نہ ہوجائیں ۔ یہ بات قرین قیاس بھی ہے ، یہ سب بھائی کنعانی تھے ، مصر ان کے لئے پردیس تھا ، اس لئے امکان تھا ، کہ لوگ انہیں اس طرح ایک ساتھ دیکھ کر شور نہ مچا دیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ ڈر تھا ، کہ کہیں میرے لڑکوں کو نظر نہ لگ جائے ، نظر کا اثر مسلم ہے ، آنکھوں میں ایسی مقناطیسی قوت ہوتی ہے ، کہ جس کو دیکھا جائے ، وہ متاثر ہوتا ہے ، حدیث میں آیا ہے ۔ ” العین حق “ یعنی نظر کا لگ جانا درست ہے ۔ آج جدید علوم میں بھی نظر کی قوت وتاثیر کو تسلیم کیا گیا ہے ، مسمریزم اسی فن کی تکمیل کا نام ہے ۔ مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے لئے ’’ذو علم “ کالفظ یہ چاہتا ہے کہ مقصود کوئی بلند علم ہو ، اور وہ سیاست ہو سکتا ہے یعنی اولاد یعقوب (علیہ السلام) کا اس حالت میں اکٹھا شہر میں وارد ہونا سیاسی پیچیدگیوں کا باعث ہو سکتا تھا جسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی سیاسی بصیرت کی بنا پر معلوم کرلیا ۔