سورة یوسف - آیت 42

وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یوسف نے جس آدمی کی نسبت سمجھا تھا کہ نجات پائے گا اس سے کہا، اپنے آقا کے پاس جب جاؤ تو مجھے یاد رکھنا (یعنی میرا حال اس سے ضرور کہہ دینا) لیکن (جب تعبیر کے مطابق اس نے نجات پائی تو) شیطان نے یہ بات بھلا دی کہ اپنے آقا کے حضور پہنچ کر اسے یاد کرتا۔ پس یوسف کئی برس تک قید خانہ میں رہا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ذریعہ حضوری : (ف ١) : حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دونوں خواب دیکھنے والوں کو تعبیر بتلائی ایک سے کہا تو ساقی گری کے عہدہ کو سنبھالے گا اور دوسرے سے کہا تو سولی دیا جائے گا ، اور پرندے تیرا گوشت نوش نوچ کے کھائیں گے ، جس کے متعلق انہیں خیال تھا کہ یہ فرعون مصر کا ساقی ہوگا ، اس سے کہا کہ مجھے یاد رکھیو ، اور موقع پا کر بادشاہ سے میرا ذکر کیجو اتفاق کی بات ہے کہ وہ رہا ہو کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عہد کو بھول گیا ، اور اس طرح مدت تک آپ کو جیل میں رہنا پڑا ۔ بعض لوگوں نے (آیت) ” فانسہ الشیطن “ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جانب منسوب کیا ہے یعنی یہ مقام نبوت کے منافی ہے کہ آپ پیغمبر ہو کر مصائب سے گھبرا جائیں ، اور ایک مخلوق سے اعانت کے طالب ہوں ، اس بھول کی یہ سزا تھی کہ آپ کو مدت تک جیل میں رہنا پڑا مگر یہ صحیح نہیں جیل میں رہنا کوئی محبوب شغل نہیں ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اگر رہائی کے لئے کوشش کی تو یہ بالکل جائز اور بہتر بات تھی اس میں بےصبری کی کوئی بات نہیں ۔ حل لغات : بقرات : بیل ، گائیں ۔ عجاف : جمع جحفاء ، دبلی پتلی ۔