قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
یوسف نے کہا (گھبراؤ نہیں) قبل اس کے کہ تمہارا مقررہ کھانا تم تک پہنچے، میں تمہارے خوابوں کا مآل تمہیں بتلا دوں گا، اس بات کا علم بھی من جملہ ان باتوں کے ہے جو مجھے میرے پروردگار نے تعلیم فرمائی ہیں، میں نے ان لوگوں کی ملت ترک کی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔
مسلمان قیدی کے فرائض دینی : (ف1) اللہ کے نیک بندے جہاں کہیں ہوں اپنے فرائض تبلیغ سے غافل نہیں رہتے ، اور اپنے کردار وعمل سے یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نیکی کے داعی ، اور بھلائی کے منار ہیں ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) جیل میں بھیج دئیے گئے کیونکہ انہوں نے عزیز ہ مصر کی محبت کو ٹھکرا دیا تھا اور ہوائے نفس کی مخالفت کی تھی ان کے ساتھ دو اور قیدی تھے ، انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شراب کو نچوڑ رہا ہے ، اور دوسرے کے سر پر روٹیاں ہیں ۔ جنہیں پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نیک وصالح سمجھ کر تعبیر دریافت کی ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ میں ضرور تعبیر بتلاؤں گا پہلے چند گزارشات سن لیجئے ، اس کے بعد ان کا پورا وعظ مذکور ہے ، جس میں انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ مسئلہ توحید کو بیان کیا ، اور ان کی اس عقیدت سے جائز فائدہ اٹھایا ، پوچھا کہ بتاؤ ، تم بہت سے خداؤں کو پسند کرتے ہو ، یا ایک مالک کو جو سب پر حاکم ہو ، غرض یہ تھی کہ یہ لوگ ایمان کی نعمت سے بہرہ ور ہوجائیں ، قرآن چونکہ کامل دستور العمل ہے اس لئے ضرور تھا کہ وہ بتائے کہ قیدیوں کے لئے کیا طریق کار ہو ، وہ قید کے دن کس طرح کاٹیں، اسوہ یوسف اسیران بالا کے لئے درس حکمت ہے۔ مسلم قیدی کے فرائض میں ہے کہ وہ وہاں بھی نیک اور صالح رہے ، اور لوگ اس کے نیک وجود سے برابر استفادہ کرتے رہیں ، جیل کی چار دیواری میں بھی وہ اس درجہ خود دار ہو کہ ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ﴾کی تلقین کرے اور سوائے اللہ کے اور کسی سے نہ ڈرے ہوتا یہ ہے کہ کے دقتوں کو انسان برداشت کرلیتا ہے مگر معصیت وابتلا کی آزمائش کڑی ہوتی ہے حضرت یوسف نے قصر شاہی میں رہ کر عفاف وعصمت کا ثبوت دیا اور جیل کی بند کوٹھڑی میں بھی تبلیغ جاری رکھی ۔