وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
اور (پھر ایسا ہوا کہ) جس عورت کے گھر میں یوسف رہتا تھا (یعنی عزیز کی بیوی) وہ اس پر (ریجھ گئی اور) ڈورے ڈالنے لگی کہ بے قابو ہو کر بات مان جائے۔ اس نے (ایک دن) دوروازے بند کردیے اور بولی لو آؤ، یوسف نے کہا معاذ اللہ ! (مجھ سے ایسی بات کبھی نہیں ہوسکتی) تیرا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھے عزت کے ساتھ (گھر میں) جگہ دی ہے ( میں اس کی امانت میں خیانت نہیں کروں گا) اور حد سے گزرنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
عفت نفس کی بہترین مثال : (ف1) جب یوسف (علیہ السلام) جوان ہوگئے ، تو عزیز مصر کی عورت نے اظہار عشق ومحبت شروع کردیا ، اور ایک دن موقع پا کر مکان کے دروازے بند کردیئے ، اور دعوت دی کہ یوسف مصروف عیش ہوں ، آپ نے کمال پاکبازی سے جواب دیا ، کہ یہ کیونکر ممکن ہے عزیز مصر نے مجھ پر احسان کئے ہیں ، اور میں انہیں دھوکہ دوں ، یہ ظلم مجھ سے نہ ہو سکے گا ۔ یہ اس وقت کے تمدن کا صحیح نقشہ ہے ، کہ امراء کی عورتیں عام طور پر عصمت فروش ہوتی تھیں ، اور شہوات نفسانی میں اس درجہ غلو تھا ، کہ اپنے غلاموں سے بھی پرہیز نہیں تھا ، آج کل بھی اونچے طبقوں میں یہی کیفیت ہے کیونکہ دولت کی فراوانی کے ساتھ دینی ضبط اور کنٹرول نہیں جس سے نفس کی شورشوں کو روکا جا سکے ، حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ضبط نفس دیکھئے ، گناہ پوری طاقت کیساتھ دعوت عمل دے رہا ہے ، خود جوان ہیں ، عزیز مصر کی حسین ومعزز عورت بلا رہی ہے ، مکان بند ہیں ، پوری خلوت ہے مگر یوسف (علیہ السلام) خدا سے پناہ مانگتے ہو ئے صاف بچ جاتے ہیں ۔ اور زبان حال سے گویا ہوتے ہیں ۔ ہزار دام سے نکلاہوں ایک جنبش میں ۔ جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے ۔