سورة یوسف - آیت 21

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اہل مصر میں سے جس شخص نے یوسف کو قافلہ والوں سے مول لیا تھا وہ (اسے لے کر اپنے گھر آیا اور) اپنی بیوی سے بولا اسے عزت کے ساتھ رکھو، عجب نہیں یہ ہمیں فائدہ پہنچائے ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ اور (دیکھو) اس طرح ہم نے یوسف کا سرزمین مصر میں قدم جما دیا اور مقصود یہ تھا کہ اسے باتوں کا نتیجہ و مطلب نکالنا سکھا دیں، اور اللہ کو جو معاملہ کرنا ہوتا ہے وہ کر کے رہتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یوسف (علیہ السلام) مصر میں : (ف ١) یہاں سے پھر اصل قصہ کا آغاز ہوتا ہے ، حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب بھائی کنوئیں میں ڈال کر چلے گئے تو وہاں سے ایک قافلہ گزرا اور پانی کی تلاش میں وہ اس کنوئیں پر ٹھہر گیا ، کنوئیں میں ڈول ڈالا ، تو معلوم ہوا کہ اس میں ایک خوش طلعت لڑکا موجود ہے ، وہ مارے مسرت کے چلا اٹھے ، کہنے لگے ، زہے قسمت ، ! ہمیں ایک نہایت حسین لڑکا مل گیا ہے ، اس کے بعد یوسف (علیہ السلام) کو قیمتی سرمایہ سمجھ کو چھپا لیا ، اور مصر میں نہایت سستے داموں یعنی چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا ، کیونکہ وہ اس کی حقیقی قدر وقیمت سے آگاہ نہ تھے ، ۔ خریدار عزیز مصر تھا ، گھر لے جا کر بیوی کو تاکید کردی کہ اسے عزت وآرام سے رکھیو عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے ، یا ہم اسے بیٹا ہی بنالیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لئے میدان صاف کرو یا اور انہیں تمکن فی الارض کے لئے موقع دیا ، یعنی سرزمین مصر میں جگہ دی ، غور کیجئے قدرت اپنے کام کس درجہ منظم طریق پرانجام دیتی ہے ، یوسف جب کنعان میں ہیں شفیق والد ہر وقت نگاہ میں رکھتے ہیں ، ایک لمحہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے ایک خواب بھائیوں کے دل میں حسد ورشک کے جذبات پیدا کردیتا ہے ۔ بھائی جنگل میں دور دراز ایک گہرے اور تاریک کنوئیں میں پھینک دیتے ہیں ، کہ ہلاک ہوجائے ، خدائے علیم دیکھ رہے ہیں ایک قافلہ کو بھیج دیتے ہیں ، اور وہ انہیں عزیز مصر کے گھر پہنچا دیتا ہے ۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ یوسف (علیہ السلام) ، خاندان نبوت کا چشم وچراغ ، غلاموں کی طرح بکتا ہے اور کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ یہی غلامی آقائی کی تمہید بن جاتی ہے ، اللہ اپنے ارادوں کی تکمیل کیلئے حیرت انگیز طریق اختیار کرتا ہے ، ہم چونکہ واقعات کے تمام جہتوں سے کما حقہ آگاہ نہیں ہوتے اور آیندہ کی نسبت علم نہیں رکھتے ہیں اس لئے بعض اوقات مصیبت سے گھبرا اٹھتے ہیں ، اور نہیں جانتے کہ اللہ کو کیا منظور ہے دیکھئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کن طریقوں سے مصر کی وزارت ملتی ہے ۔