وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ
اور جن لوگوں نے سعادت پائی تو وہ بہشت میں ہوں گے اور اسی میں رہیں گے جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، (اس کے خلاف کچھ ہونے والا نہیں) مگر ہاں اس صورت میں کہ تیرا پروردگار چاہے یہ (سعیدوں کے لیے) بخشش ہے ہمیشہ جاری رہنے والی۔
رحمت الہی کی فراوانیاں : (ف1) دنیا میں ہمیشہ دو گروہ رہے ہیں ، ایک وہ جنہیں سعادت ازلی سے بہرہ وافر ملا ہے ، اور دوسرا وہ جن کے حصہ میں محرومی شقاوت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ اللہ نے ان گروہوں کے لئے حیات اخروی میں اعمال کے موافق وومقام تجویز فرمائے ہیں ۔ ایک مقام غضب جس کا نام جہنم یا دوزخ ہے اور ایک مقام رحمت وعفو ، جو جنت یا فردوس کے نام سے مشہور ہے ان آیات میں اس حقیقت کی تشریح مذکور ہے ، ﴿مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ﴾عربی محاورہ ہے جس سے مراد دوام وتائید ہوتی ہے جیسے ” ما جن اللیل ، ماناح الحمام ما سال سبل ، ماطما جر “۔ وغیرہ محرات میں مقصد دوام ہوتا ہے ۔ عذاب کی آیت میں ﴿إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ﴾کہنا اور اس کے بعد ﴿فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾کہنا اور ثواب کی آیت میں استثناء کے بعد ﴿عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ ﴾ کہنا یعنی غیر منقطع انعام اس سے اللہ کی ہمہ گیر رحمت ترشح ہوتی ہے ، ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا دائرہ عفو ورحمت بہت وسیع ہے ، اس کی اولی رحمت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ کو آن وعد میں سرد کرسکتی ہے ، اس کا غصہ اصلاح وہدایت کے لئے ہے انتقام کے لئے ہرگز نہیں ۔ ﴿إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ﴾کا استثناء آیت تعذیب میں موصیلہ معنوں کے لئے ہے ۔ اور آیت تبشیر میں تائید حسرت و جنت کے لئے جیسے ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ﴾میں یہ منشاء نہیں کہ حضور وحی والہام کو بھول سکتے ہیں ، دوم نسیان کی تاکید فرمائی ہے، یعنی خدا ہی چاہے تو نسیان وسہو ی الہام میں پیدا ہو سکتا ہے ، ورنہ نہیں ، آیت بشارت میں بالکل یہی انداز بیان ہے یعنی سعادت مند روحیں ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گی اور سوا خدا کے اور کوئی قوت انہیں جنت کی نعمتوں سے محروم کرسکے گی ۔حل لغات : مَجْذُوذٍ: کٹا ہوا ۔ جذ کے معنی کاٹنے اور قطع کرنے کے ہوتے ہیں ، جذاذا ، یعنی ٹکڑے ٹکڑے ۔