قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ
(تب مہمانوں نے) کہا اے لوط ! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے آئے ہیں (گھبرانے کی کوئی بات نہیں) یہ لوگ کبھی تجھ پر قابو نہ پاسکیں گے، تو یوں کر کہ جب رات کا ایک حصہ گزر جائے تو اپنے گھر کے آدمیوں کو ساتھ لے کر نکل چل اور تم میں سے کوئی ادھر ادھر نہ دیکھے (یعنی اور کسی بات کی فکر نہ کرے) مگر ہاں تیری بیوی (ساتھ دینے والی نہیں، وہ پیچھے رہ جائے گی) جو کچھ ان لوگوں پر گزرنا ہے وہ اس پر بھی گزرے گا، ان لوگوں کے لیے عذاب کا مقررہ وقت صبح کا ہے اور صبح کے آنے میں کچھ دیر نہیں۔
(ف2) حضرت لوط (علیہ السلام) کی عورت نے دعوت کو قبول نہ کیا اور کفر وفسق میں قوم کا ساتھ دیا ، اس لئے ضرور تھا کہ جلد اور ضروری اس کو بھی معذبین میں شامل کرلیا جائے ، حضرت لوط (علیہ السلام) چونکہ پیغمبر تھے ، انہوں نے اس برائی کے خلاف تو قوم کو بالخصوص لعن طعن کی ، مگر ان کی دعوت وتبلیغ میں بھی تفصیلی ہدایات موجود تھیں ، جن میں توحید سے لے کر اعمال تک تمام دوسری جزئیات شامل تھیں ، آپ کی بیوی نے آپ کی دعوت کا انکار کیا ، اس طرح وہ اس نظام فسق وفجور کا موجب بنی جو قوم کو تباہ کر رہا تھا ، اور اس لئے عذاب میں اس کا شمول ضروری ٹھہرا ورنہ خلاف وضع فطرت کے فعل میں کوئی عورت ساتھ نہیں دے سکتی ، یہ اس نسوانی فطرت کے خلاف ہے جس سے تخلف ناممکن ہے۔