وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ
اور اس کی بیوی (سارہ) بھی (خیمہ میں) کھڑی (سن رہی) تھی، وہ ہنس پڑی (یعنی اندیشہ کے دور ہوجانے سے خوش ہوگئی) پس ہم نے اسے (اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے) اسحاق (کے پیدا ہونے) کی خوشخبری دی اور اس کی کہ اسحاق کے بعد یعقوب کا ظہور ہوگا۔
(ف ١) وامراتہ قآئمۃ “۔ سے صاف ظاہر ہے کہ مہمانوں کی عزت افزائی میں عورت بھی شریک ہونی چاہئے ، خاوند کی حاضری میں مہمانوں سے گفتگو شرعا جائز ہے ، البتہ موجود تہذیب کی آزادی اور جلوت وخلوت میں اغیار سے ملاقاتیں ، بالکل جائز نہیں ، کیونکہ اس طریق سے اخلاق کو صدمہ پہنچتا ہے ، عورت کی تخلیق کا مقصد عفاف ہے یہی اس کا زیور ہے ، اور اسی سے اس کی عزت قائم ہے یہ نہیں تو پھر عورت میں تعلیم وتہذیب کی خوبیاں بھی عیب ہیں ، اسلام چونکہ مذہب فطرت ہے ، توازن واعتدال میں سمویا ہوا ہے اس لئے اس کی ہدایات میں توسط واحتیاط کا ہر پہلو موجود ہے ، عورت کو اس حد تک آزادی دی ہے جس حد تک اس کے لئے مفید ہے وہ آزادی جو سراسر آوارگی ہے ، اسلام میں درست نہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کا فرشتوں کے پاس کھڑے ہو کر باتیں سننا ، جواب دینا ، اور ہنسنا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خاوند کی موجودگی میں مہمانوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں شرعا مضائقہ نہیں اس سے مہمان کی عزت افزائی ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے مجھے غیر نہیں سمجھا گیا ،