سورة ھود - آیت 62

قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لوگوں نے کہا اے صالح پہلے تو تو ایک ایسا آدمی تھا کہ ہم سب کی امیدیں تجھ سے وابستہ تھیں پھر کیا تو ہمیں روکتا ہے کہ ان معبودوں کی پوجا نہ کریں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں؟ (یہ کیسی بات ہے؟) ہمیں تو اس بات میں بڑا ہی شک ہے جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو کہ ہمارے دل میں اترتی نہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) حیف ہے آباء واجداد کی ایسی تقلید پر کہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ہم باپ دادا کے مسلک کو نہیں چھوڑ سکتے ، چونکہ ہمارے بزرگ بت پرست تھے اور وہ بتوں کو خدا مانتے تھے ، اس لئے اب ہمارے ماتھے خدا کے سامنے نہیں جھک سکتے ، (آیت) ” قد کنت فینا مرجوا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ تیرے اعلان توحید سے ہمیں کامل مایوسی ہوئی اس سے قبل ہمیں توقع تھی کہ تیری نیکی پر سعادت مندی ہماری مخالفت پر تجھے آمادہ نہیں کرے گی ہمیں تجھ سے امیدیں تھیں ، مگر توحید کے وعظ نے ہمیں ناامید کردیا ۔ آباء سے مراد آباء علم بھی ہوسکتے ہیں یعنی ہم نے اپنے ملانوں اور مولویوں کو اسی طرح شرک کی آلودگیوں سے ملوث دیکھا ہے ۔ حل لغات : واستعمرکم : استعمار سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی آبادی چاہنے ، اور زندگانی کرنے کے ہیں ۔ مجیب : کے معنی قبول کرنے والے کے ہیں ۔