الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
کسی بات کا حق ہونا ہی اس کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ حق کے معنی ہی قائم و ثابت رہنے کے ہیں اور جو بات قائم و ثابت رہنے والی ہے اس کے لیے اس کے قیام و ثبات سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہوسکتی ہے
(ف ٢) (آیت) ” یعرفونہ “ کی ضمیر یا تو تحویل قبلہ کی طرف راجع ہے ، جیسا کہ ظاہر سباق سے واضح ہے اور یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو گو مذکور نہیں لیکن سننا سمجھے جا سکتے ہیں یعنی جس طرح یہ اپنے بچوں کو بغیر کسی دلیل منطقی کے پہنچان لیتے ہیں اور کبھی انہیں شبہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ درست وصحیح ہے یعنی ان کی مذہبی کتابوں میں جب اس کا ذکر ہے تو پھر شک وشبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اگر ضمیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرف راجع ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اس قدر جلی اور اظہر ہے کہ کم از کم ان لوگوں کے لئے انکار کی کوئی وجہ نہیں ، وہ جو صبح ومساتین سال تک متواتر آپ کے انوار وتجلیات کو برملا دیکھتے ہیں وہ کیسے انکار کرسکتے ہیں جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے متعلق قطعی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ میری اولاد ہے اور جس طرح اسے نفسیاتی یقین ہوتا ہے ، جسے کوئی منطق اور کوئی فلسفہ شک وشبہ سے نہیں بدل سکتا ، اسی طرح ان میں کے اہل حق وبصیرت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ نفسیاتی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتے ہیں ، مگر باطل اور کتمان حق کی مرتکب جماعت جن کا شیوہ حیات ہی لوگوں کو گمراہ کرنا ہے ‘ انہیں روکتی ہے ۔