إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی، کوئی حرکت کرنے والی ہستی نہیں کہ اس کے قبضہ سے باہر ہو۔ (١) میرا پروردگار (حق و عدل کی) سیدھی راہ پر ہے (یعنی اس کی راہ ظلم کی راہ نہیں ہوسکتی)
(ف ١) ” اخذبنا صیتھا “۔ اصل میں تمثیل ہے تسخیر مخلوقات کی یعنی تمام کائنات اس طرح اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے جس طرح کسی جاندار کو سر سے پکڑ رکھا ہو ، (آیت) ” ان ربی علی صراط مستقیم “۔ سے غرض یہ ہے کہ خدا جس راہ کی جانب اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے حق وصداقت کی رہی راہ ہے ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم دشمن ہے اور نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو آپ نے پورے صبر اور استقلال سے مقابلہ کیا ، دعوت وتذکیر کے عمل کو جاری رکھا اور کہا میں تمہاری شرارتوں سے ڈرتا نہیں اللہ پر میرا بھروسہ ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔ بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کوچونکہ اپنی صداقت پر یقین کامل ہوتا ہے ، اس لئے کوئی عداوت انہیں دبا نہیں سکتی جس قدر ان کی مخالفت کی جاتی ہے ، ان کا جذبہ حق پسندی ترقی پذیر ہوتا ہے ، ان کے عزم واستقلال میں اور اضافہ ہوجاتا ہے وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ خدا کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔