سورة ھود - آیت 52

وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اے میری قوم کے لوگو ! اپنے پروردگار سے (اپنے قصوروں کی) مغفرت مانگو، اور (آئندہ کے لیے) اس کی جناب میں توبہ کرو، وہ تم پر برستے ہوئے بادل بھیجتا ہے (جس سے تمہارے کھیت اور باغ شاداب ہوجاتے ہیں) اور تمہاری قوتوں پر نئی نئی قوتیں بڑھاتا ہے (کہ روز بروز گھٹنے کی جگہ اور زیادہ بڑھتے جاتے ہو) اور (دیکھو) جرم کرتے ہوئے اس سے منہ نہ موڑو۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

دین قوت وعزت کا نام ہے : (ف1) ﴿يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ہود (علیہ السلام) قوم کو دین ودنیا کی بشارتیں سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دینداری کے معنی ضعف واضمحلال کے نہیں ، فقروافلاس کے نہیں محکومی اور مظلومیت کے نہیں ، بلکہ قوت وعظمت کے ہیں ، اگر تم دیندار ہوجاؤ ، تو آسمان کے بابرکت دروازے تمہارے لئے کھل جائیں گے زمین تمہارے لئے سیم وزر کے خزانے اگلے گی ، اللہ تمہاری قوتوں میں اضافہ کر دے گا ، تم دنیا میں زبردست بن کر زندگی بسر کرو گے ، تمہارا افلاس دولتمندی سے بدل جائے گا ، دل ودماغ میں ایمان ویقین کی شمعیں روشن ہوں گی ، ایمان کے ساتھ دولت وقوت لازم ہے ، خدا سے محبت کا نتیجہ رفعت وبلندی ہے ، یہ غلط بات ہے کہ دینداری محرومی وبدقسمتی ہے ، دیکھ لیجئے ابتداء سے دین کا یہی مفہوم ہے جو انبیاء پیش کرتے چلے آئے ہیں ، کہ تم مومن ہوجاؤ اللہ کی رحمتیں تمہارے شامل حال ہوجائیں گی ، یہ خدا کا اٹل اور مضبوط فیصلہ ہے ، یہ ایک محکم قانون ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہو سکتا ، جس طرح طلوع آفتاب کے ساتھ روشنی اور حرارت ضروری ہے ، جس طرح شگفتگی وتازگی موسم بہار کا خاصہ ہے ، اسی طرح جب ایمان کا آفتاب دلوں میں چمکے تو ضرور ہے کہ تاریکیاں چھٹ جائیں ، جب اسلام کا عہد بہار شروع ہو ، تو دل شگفتہ اور دماغ تازہ ہوجائیں ، بہرحال اسلام ایمان شرط ہے ، اللہ کو ظاہر کے ساتھ باطن بھی پسند ہے ، صرف ظاہری ایمان جو صرف الفاظ تک محدود ہو ، اللہ کے نزدیک قابل وقعت نہیں ، جب تک اس ظاہر کے ساتھ بطن بھی شامل نہ ہو ، جب تک ایمان زندگی بخش نہ ہو ، دلوں میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کر دے ، خدا کے نزدیک صحیح معنوں میں ایمان نہیں ، یہ محض فریب خوردگی ہے کہ ہم خدا کی نافرمانی کے باوجود اپنے آپ کو نجات کا مستحق سمجھتے ہیں ، اللہ ہماری معصیتوں کو بخش دے یہ اس کی نوازش ہوگی ، لیکن جہاں تک ہماری جدوجہد کا تعلق ہے وہ حصول نجات کے لئے ناکافی ہے ۔ حل لغات : مِدْرَارًا: وہ ابر جو خوب برسے ۔ فَكِيدُونِي :کیدا ۔ تدبیر ۔ پرسگالی ، حیلہ ۔