قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ
(نوح نے) عرض کیا خدایا ! میں اس بات سے تیرے حضور پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی بات کا سوال کروں جس کی حقیقت کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور رحم نہ فرمایا تو میں ان لوگوں میں سے ہوجاؤں گا جو تباہ حال ہوئے۔
(ف1) حضرت نوح (علیہ السلام) جہاں اللہ کے پیغمبر تھے ، وہاں ایک شفیق اور مہربان باپ بھی تھے ، اس لئے بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتا ہوا نہ دیکھ سکے ، شفقت پدری جوش میں آگئی ، الفاظ کا بہانہ ڈھونڈا اور اللہ سے درخواست کی کہ اے رب تونے وعدہ کیا تھا کہ تیرے اہل کو بچاؤں گا ، تیرا وعدہ سچا ہے میرا لڑکا بھی تو میرے اہل میں سے ہے ، پھر وہ کیوں کشتی میں نہیں بیٹھ سکتا ، دل میں اللہ کا ڈر بھی موجود ہے ، سفارش کے ساتھ یہ بھی کہے جاتے ہیں ، تو احکم الحاکمین ہے تو فیصلہ فرما دے ، اس میں تنقید کی گنجائش نہیں ۔ اللہ نے جواب دیا ، انبیاء کا مرتبہ صلبی درجوں سے بالا ہے ، اہل وہ نہیں جو تیرا عزیز ہے اہل وہ ہے جو مومن ہے ، جسے تیرے عقائد کے ساتھ محبت ہے ، بیٹے سے زیادہ کون عزیز ہو سکتا ہے ، اور نوح (علیہ السلام) سے زیادہ کون معزز ہے ، پھر جب نوح (علیہ السلام) کی اس باب میں نہیں سنی گئی ، اور اس کے حقیقی بیٹے کو بلحاظ عمل بیٹا قرار نہیں دیا گیا ، تو وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اور محض جھوٹی نسبتوں پر نازاں ہیں ، کس قدر بےوقوف ہیں ، وہ خدا کے آئین شرف ومجد سے آگاہ نہیں ، اللہ کے نزدیک ایک اچھے آدمی سے تعلقات اور رشتہ داریاں وجہ شفاعت نہیں ہو سکتیں ، نیک اعمال اور عقائد کی درستی ہی سے اللہ کا قرب حاصل کیا سکتا ہے ، حل لغات : أَنْبَاءِ: جمع نبا ، خبر ۔