وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور (پھر اللہ کا) حکم ہوا اے زمین ! اپنا پانی پی لے، اور اے آسمان ! تھم جا، اور پانی کا چڑھاؤ اتر گیا اور حادثہ انجام پا گیا اور کشتی جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا نامرادی اس گروہ کے لیے ہے جو ظلم کرنے والا گروہ تھا۔
قرآن کی بلیغ ترین آیت : (ف2) اس پانی کے طوفان میں تمام منکرین خس وخاشاک کی طرح بہ گئے ، ان کا غرور انکے کام نہ آسکا ، اور خدا کے غضب سے سب غرق ہوگئے ، اس آیت میں قرآن حکیم نے طوفان تھم جانے کی تصویر جن الفاظ میں کھینچی ہے وہ بلاغت کا حیرت انگیز مرقع ہے ، علماء نے اس آیت کے اسرار ونکات پرکتابیں لکھی ہیں ، اس کی معنوی اور لفظی خوبیاں اس قدر حیران کن ہیں ، کہ ہر پڑھا لکھا انسان اعتراف کرتا ہے علامہ ابوحیان اندلسی نے بدیع کی اکیس قسموں کو اس میں جلوہ گر دیکھا ہے ، سید محمد بن اسمعیل نے اس پر ایک مخصوص رسالہ لکھا ہے ، زمخشری جو اسرار ورموز ادب کا سب سے بڑا ماہر ہے ، دلائل الاعجاز میں صفحے کے صفحے لکھ گیا ہے ۔ اس آیت کے الفاظ کا نظم ونسق اتنا بہتر ہے کہ واقع کی تصویر کھینچ جاتی ہے ، اگر تم ترنم وترتیل کے آیت کی تلاوت کرو ، تو معلوم ہوگا ، کہ بادوباراں کا ایک طوفان ہے ، جو تھمتا ہوا نظر آ رہا ہے وہی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ حل لغات : ابْلَعِي: بلع یبلع ۔