وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
اور (کہا گیا کہ) ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بنانا شروع کردے اور ان ظالموں کے بارے میں اب ہم سے کچھ عرص معروض نہ کر، یقینا یہ لوگ غرق ہوجانے والے ہیں۔
(ف1) نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جب بہت زیادہ مخالفت کی اور پندوعظ سے کامل بیزاری کا اظہار کیا ، تو اللہ کا غضب بھڑکا ، ارشاد ہوا ، کشتی تیار کرو ، ایک عذاب بھیجا جائے گا ، جس سے یہ ہمکنار ہوں گے اور بچ نہیں سکیں گے ، اور جو لوگ اس قابل ہیں کہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں ، ان کے متعلق سفارش نہ کی جائے ، کیونکہ منشاء ایزدی یہ ہے کہ کفر کا مکمل استیصال کردیا جائے ، اور انہیں بتا دیا جائے کہ خدا کی زمین پر ایسے مجرموں کو بےصرف اور آسائش سے رہنے کا کوئی حق نہیں ، اللہ تعالیٰ زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرنا چاہتا ہے ۔ ﴿بِأَعْيُنِنَا ﴾سے غرض نگرانی ہے یعنی ہماری ہدایات کے مطابق یہ مجازی استعمال ہے ، قرآن حکیم میں اس نوع کے جس قدر الفاظ وارد ہوئے ہیں ، سب میں مجازی رنگ ہے ، ورنہ وہ تو خود آنکھیں بخشتا ہے ، اور آنکھوں میں نور پیدا کرتا ہے اسے آنکھوں کی حاجت نہیں ، وہ بغیر آلات وجوارح کے کامل ہے ۔