سورة ھود - آیت 29

وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لوگو یہ جو کچھ میں کر رہا ہوں تو اس پر مال و دولت کا تم سے طالب نہیں، میری خدمت کی مزدوری جو کچھ ہے صرف اللہ پر ہے، اور یہ بھی سمجھ لو کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں (وہ تمہاری نگاہوں میں کتنے ہی ذلیل ہوں گے مگر) میں ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنے پاس سے انہیں ہنکا دوں، انہیں بھی اپنے پروردگار سے) ایک دن) ملنا ہے (اور وہ ہم سب کے اعمال کا حساب لینے والا ہے) لیکن (میں تمہیں سمجھاؤں تو کس طرح سمجھاؤں) میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جماعت ہو (حقیقت سے) جاہل۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

دوسرے اعتراض کا جواب : (ف1) سب سے پہلے قرآن حکیم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان سے دوسرے اعتراض کا جواب دیا ہے اس لئے کہ وہ باوجود بشریت کے حضرت نوح (علیہ السلام) کو پیغمبر مان سکتے تھے ، مگر یہ ان کے کبر وغرور کے لئے قطعا ناقابل برداشت تھا کہ وہ غرباء کم درجہ لوگوں کے دین کو قبول کرلیں ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے جوابا ارشاد فرمایا ، میں اپنے دعاوی میں سچا ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے صداقت کے دلائل عنایت فرمائے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ تمہیں حق کی راہ سوجھائی نہیں دیتی ، میں تم سے کچھ اجر طلب نہیں کرتا ہوں ، کہ مخلص دیندار غربا کو اپنے پاس سے ہٹا دوں ، تم جاہل ہو اس لئے افلاس وغربت کو معیوب سمجھتے ہو ، اللہ کے نزدیک دیندار مفلس ، سرمایہ دار کافر سے بہتر ہے ، البتہ اگر افلاس برا ہے ، تو تنگدستی کا افلاس نہیں اگر اخلاق و ایمان کا افلاس برا ہے ، اللہ کے نزدیک ذلیل وہ ہے ، جو اخلاق سے تہی دامن ہے اور بجز ذات حق تعالیٰ کے ہر کہ ومہ مخلوق فقیر اور حاجت مند ہے ۔ ﴿وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ﴾۔