سورة البقرة - آیت 143

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (مسلمانو ! جس طرح یہ بات ہوئی کہ بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ قبلہ قرار پایا) اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ ہم نے تمہیں نیک ترین امت ہونے کا درجہ عطا فرمایا تاکہ تم انسانوں کے لیے (سچائی کی) گواہی دینے والے ہو اور تمہارے لیے اللہ کا رسول گواہی دینے والا ہو۔ اور اگر ہم نے اتنے دنوں تک تمہیں اسی قبلہ پر رہنے دیا جس کی طرف تم رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہ اس لیے تھا، تاکہ (وقت پر) معلوم ہوجائے کون لوگ اللہ کے رسول کی پیروی میں سچے ہیں اور کون لوگ (دل کے کچے ہیں جو آزمائش میں پڑ کر) الٹے پاؤں پھر جانے والے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں کے سوا اور سب کے لیے اس معاملہ میں بڑی ہی سخت آزمائش تھی۔ بہرحال (جو لوگ آزمائش میں پورے اترے ہیں وہ یقین کریں ان کی استقامت کے ثمرات بہت جلد انہیں حاصل ہوں گے) ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا تمہارا ایمان رائگاں جانے دے۔ وہ تو انسان کے لیے سرتاسر شفقت و رحمت رکھنے والا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

زمین میں خدا کے مبلغ : (ف ٢) اس آیت میں مسلمان کے منصب ودرجہ کی توضیح ہے ۔ ” کذلک “ سے یہ مراد ہے کہ جس طرح کعبہ تمام کائنات کا روحانی مرکز ہے ، اسی طرح مسلمان کو خدا نے تمام انسانوں کا مرکز عمل بنایا ہے ، لوگوں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے نقش قدم پر چلیں ، اس لئے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں جسے عمل وتبلیغ کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہوں وہ دنیا کے لئے حیات وعمل کا بہترین نمونہ ہے (آیت) ” شھدآء علی الناس کی تفسیر ہے ، مبلغین وعاملین کی جماعت سے اسی آیت کی تشریح میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو فرمایا کہ ” انتم شھدآء اللہ فی الارض “ یعنی تم زمین میں خدا کے مبلغ ہو ۔ تحویل قبلہ کا فلسفہ : (ف ٣) تبدیلی قبلہ سے غرض یہ بھی تھی کہ اہل ایمان کو امتحان ہوجائے کہ کون رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق کا بہرحال ساتھ دیتا ہے اور وہ کون ہے جو شبہات وسواس میں گرفتار ہوجاتا ہے ، قاعدہ ہے کہ سالک مرشد کامل کی ہدایات کو حسن ظن کی نظر سے دیکھے ورنہ اندیشہ محرومی ہے ع بہ مئے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید ۔ چنانچہ اہل ایمان وسلوک کی ایک جماعت نے جب تبدیلی قبلی کی خبر پائی تو نماز ہی میں گھوم گئے ، بتلانا یہ مقصود تھا کہ غیر مسلم دیکھیں کہ خدا کے یہ بندے کس درجہ جذبہ اطاعت سے سرشار ہیں ۔ دوسری آیت میں اس شبہ کا جواب ہے کہ وہ لوگ جو تعیین قبلہ سے پہلے مر گئے ہیں ان کا کیا حشر ہوگا ؟ فرمایا خدا ایمان صحیح کے ساتھ ہر عمل کو قبول کرلیتا ہے ، ان لوگوں تک چونکہ یہ حکم پہنچا ہی نہیں اس لئے معذور ہیں ۔ حل لغات : قبلۃ : اصل معنی جانب وطرف کے ہیں جو جاذب التفات ہو اصطلاھات وہ بیت العبادۃ ہے جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے ، وسطہ : درمیان ، بہترین ، افراط تفریط سے پاک ، عادل ۔