سورة ھود - آیت 27

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے دو اعتراض : (ف ١) انبیاء کے متعلق یہ پرانا خیال ہے کہ انہیں فوق البشر ہونا چاہئے ، خلعت بشریت کو کسوت نبوت کے منافی قرار دنیا قدیم سے شیوہ کفر وانکار رہا ہے ، یہ اعتراض بھی قدیم ہے کہ ابتداء دعوت کو لبیک کہنے والے غریب اور مفلس لوگ ہوتے ہیں چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب قوم کو ہدایت کی جانب بلایا ، اور کہا کہ مسلک توحید پر گامزن ہوجاؤ ، ورنہ حق کے مقابلہ میں تم نپٹ نہیں سکو گے ، قدرت کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو قومیں قانون فطرت کو نہ مانیں انہیں زندہ رہنے کا کوئی استحقاق نہیں ، قوم کے اکابر نے اس وعظ کو سنا ، اور نہایت شوخ چشمی سے کہا تم میں اور ہم میں امتیاز ہی کیا ہے ، تم بھی ایک ضرورت مندا انسان اور ہم بھی انسان نیز تمہیں اشراف قوم نے ٹھکرا دیا ہے ، بڑے بڑے لوگوں نے تمہاری اطاعت قبول نہیں کی ، کیا چند ذلیل لوگوں میں شامل ہونے کے لئے ہمیں دعوت دیتے ہو ، کیا ہم ایمان لا کر ان کی طرح ذلیل ہوجائیں ۔ بعد کی آیات میں ان دونوں اعتراضات کا مفصل جواب دیا ہے غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے قوم نوح کے اعتراضات نقل کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ فرمایا ہے ، کہ جس طرح انسان کی حقیقت ایک ہے ، اسی طرح کفر میں یکساں طور چلا آرہا ہے ، ابتدا سے لے کر اب تک کفار کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ، حل لغات : بادی الرای : اول فکر یعنی بظاہر ۔ عمیت : عمایت سے ہے ، یعنی اندھا پن تمہارے حصہ میں آیا ہے ۔