فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
اور اگر تمہیں اس بات میں کسی طرح کا شک ہو جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تمہارے زمانے سے پہلے کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں (یعنی اہل کتاب) کہ یقینا یہ سچائی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر اتری ہے تو ہرگز ایسا نہ کرنا کہ شک کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔
(ف1) قرآن حکیم کا انداز بیان ہے کہ مخاطب حضور (ﷺ) کو کیا جاتا ہے اور مقصود دوسرے ہوتے ہیں ، کیونکہ آپ ترجمان وحی ہیں اور انسانیت کے وکیل بھی اس لئے اللہ تعالیٰ بالوحی انہیں سے تخاطب فرماتے ہیں ، ورنہ آنحضرت (ﷺ) شک وریب سے پاک ہیں ، وہ تو سراپا یقین و ایمان ہیں ، حضرت ابن عباس (رض) سعید بن جبیر ، (رض) قتادہ (رض) اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ” لم یشک رسول اللہ “ یعنی حضور (ﷺ) کو کبھی شک نہیں پیدا ہوا ۔ اور غور فرمائیے جو دوسروں کو ایمان ویقین کی نعمتیں بانٹ رہا ہے ، جو دلوں کو نور ومعرفت سے اجاگر کر رہا ہے کیا وہ خود سرمردود ہو سکتا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن سابقہ کتب کا موید ہے توریت وانجیل میں صدہا پیش گوئیاں موجود ہیں ، جو قرآن کی صداقت پر دال ہیں ۔