فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا (ہم دعا کرتے ہیں کہ) پروردگار ہمیں اس ظالم گروہ کے لیے آزمائشوں کا موجب نہ بنائیو (کہ اس کے ظلم و ستم کے مقابلہ میں کمزوری دکھائیں)
(ف2) دین ودنیوی استقلال کے لئے پہلا زینہ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لئے تجویز فرمایا وہ توکل ہے ، یعنی ۔ 1۔ خدا پرکامل ایمان ۔ 2۔ کامیابی کا پورا یقین ۔ 3۔ وسائل وذرائع میں دیانت وصیانت کا لحاظ ۔ ظاہر ہے جب قوم میں یہ تین چیزیں پیدا ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ قوم بیدار ہوچکی ، اور کامرانی کی راہیں اس پر کھل چکی ہیں ۔ اللہ کو اگر چارہ ساز مان لیا جائے تو پھر کامیابی یقینی وقطعی ہے ۔ توکل کا صحیح مفہوم یہی ہے آج توکل کے معنی تعطل وبے کاری کے ہیں ، اللہ مسلمانوں کو سمجھ دے ، آمین ۔ حل لغات : فِتْنَةً: وجہ آزمائش ۔