وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
یہودیوں نے کہا یہودی ہوجاؤ ہدایت پاؤ گے، نصاری نے کہا نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاؤگے۔ لیکن تم کہو، نہیں (خدا کی عالمگیر سچائی ان گروہ بندیوں میں محدود نہیں ہوجا سکتی) اس کی راہ تو وہی "حنیفی" راہ ہے جو ابراہیم کی راہ تھی یعنی تمام انسانی طریقوں سے منہ موڑنا اور صرف خدا کے سیدھے سادھے فطری طریقہ کا ہو رہنا) اور یقینا وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا
(ف ١) ان آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اس زعم باطل کی تردید ہے کہ انبیاء سے انتساب انہیں نجات دلا سکے گا ، فرمایا تم ان لوگوں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہو ، تم سے صرف تمہارے اعمال کی بابت پوچھا جائے گا ، پھر یہ بتایا کہ اسلام میں قطعا تخرب وتفریق کی گنجائش نہیں ، نجات یہودیت وعیسائیت کے محدود دائروں مین نہیں بلکہ توحید واسلام کے وسیع حلقہ میں ہے جس میں بت پرستی وشرک کی تنگ دلانہ ذہنیت کی بجائے توحید وتفرید کی آزادی ووسعت قلبی ہے ۔