سورة یونس - آیت 49

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ معاملہ کچھ میرے اختیار میں نہیں کہ بتلا دوں کب واقع ہوگا) میں تو خود اپنی جان کا بھی نفع نقصان اپنے قبضہ میں نہیں رکھتا۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ نے چاہا ہے، ہر امت کے لیے (پاداش عمل کا) ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ وقت آ پہنچتا ہے تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عذاب کا وقت : (ف ٢) مکے والے بربنائے استہزاء عذاب کے طالب تھے ، کہتے تھے کہ جب آپ شب وروز ہمیں عذاب سے ڈراتے ہیں ، تو پھر وہ آکیوں نہیں جاتا ، اور کیوں ہمیں انکار ومعصیت کے لئے زندہ رہنے دیا جاتا ہے ، گویا ان کے خیال میں اللہ جو انہیں ڈھیل دے رہا ہے ، اور مواخذہ میں تعجیل نہیں کرتا ، تو یہ ان کے لئے ہمت افزائی ہے ، قرآن نے جواب دیا ہے کہ کسی قوم کے متعلق آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، پیغمبر نفع وضرر کا مالک نہیں ، اللہ جب تک چاہے مجرموں کو ڈھیل دے ، اور جب ان کے جرائم حد سے تجاوز کر جاتے ہیں ، تب ان کی تباہی کا وقت آجاتا ہے ، اور پھر نہ تاخیر ہوتی ہے اور نہ خرابی میں کسر رکھی جاتی ہے ۔