سورة یونس - آیت 4

إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم سب کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے، وہی ہے جو پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے (یعنی مرنے کے بعد دوبرہ زندہ کرے گا) تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں انصاف کے ساتھ بدلہ دے، باقی رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو انہیں پاداش کفر میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور عذاب دردناک

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اس آیت میں حشر ونشر کا ثبوت دیا گیا ہے قرآن چونکہ مدلل کتاب ہے اس لئے کوئی دعوی تشنہ برہان نہیں رہنے دیا ، امکان حشر کے متعلق فرمایا (آیت) ” انہ یبدؤالخلق “۔ کہ وہ اس وقت کائنات کو وجود میں لاتا ہے ، جب کہ وہ کہیں موجود نہیں ہوتی ، بلکہ خود وجود اس کی قدرت کا کرشمہ ہے ، اس لئے جب کائنات کی کیفیت فنا ہوجائے گی ، تو اس وقت بھی اسے دوبارہ پیدا کیا جا سکتا ہے ، جو بات ایک دفعہ ممکن ہے ، وہ دوسری بار کیوں محال ہو ، ضرورت حشر کے متعلق ارشاد فرمایا ، (آیت) ” لیجزی الذین امنوا وعملوا الصلحت بالقسط “۔ یعنی تاکہ صلحاء اور پاکباز لوگوں کو اجر سے بہرہ ور کیا جائے ، اس دنیا میں مکافات عمل کا پورا سامان وانتظام نہیں ہوسکتا ہے ، ایک شخص ڈاکو ہو ، چور ہو ، اور قوم وعدالت کی گناہوں میں معزز ہو ، یہ بھی ممکن ہے ، ایک شخص نیک اور پاکباز ہو ، مگر عوام میں اس کی بدعملی کا شہرہ ہو ، اس لئے ضرورت ہے ، ایک ایسے عالم کے فرض کرنے کی جہاں عدل وظلم میں حلو فاصل موجود ہو ، جہاں نیک وبد میں امتیاز ہو ، جہاں کی عدالتیں جرم سے اغماض نہ کرسکیں ، اور ایک پاکباز انسان کو پاکبازی کی پوری پوری قیمت مل سکے ، یہی عالم آخرت ہے جسے اسلام پیش کرتا ہے ۔